• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آگ شاید ان گنی چنی چیزوں میں شمار ہو گی جو نہ گورے کالے میں تمیز کرتی ہے، نہ مفلس اور مالدار میں اور نہ مغرب میں اور نہ مشرق میں۔ بس ذرا سا امتیاز برتتی ہے باشعور اور بے شعور لوگوں میں۔ جب پھونکنے پر آجائے تو کہتے ہیں کہ لنکا تک کو پھونک ڈالتی ہے۔ دنیا نے ابھی حال ہی میں آگ کی بے رحمی کی دو ایسی مثالیں دیکھیں جو ایک ٹھکانے پر تو دیر تک یاد رکھی جائے گی اور جو دوسرے الاؤ کی جھلسی ہوئی سرزمین پر دیکھتے دیکھتے بھلا دی جائے گی اور لوگ سب کچھ پیٹھ کے پچھواڑے پھینک کر کچھ اس طرح آگے بڑھ جائیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔یہ سب کچھ دو ہفتوں کے اندر ہوا۔ پہلے مغربی لندن میں ایک چوبیس منزلہ عمارت آدھی رات کو یوں جلی جیسے زمین میں گاڑی ہوئی کوئی خشک لکڑی جل رہی ہو۔ کہتے ہیں کہ چوتھی منزل کے ایک فلیٹ میں ریفریجریٹر اچانک بھڑک اٹھا اور ابھی اس کا مالک شور مچاکر لوگوں کو خبردار کر ہی رہا تھا کہ اس آگ نے شدت اختیار کی اور وہ نظارہ برسوں ذہن میں اٹکا رہے گا کہ دوسو بیس فٹ اونچی عمارت اوپر سے نیچے تک شعلوںکی لپیٹ میں آگئی۔پھر جو قیامت مچی اسے تصور کرنا مشکل ہے۔ سراسیمہ لوگ عمارت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگے اور آگ بجھانے والا عملہ انہیں مشورہ دینے لگا کہ اپنے فلیٹوں ہی میں رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لندن جیسے شہر کے تقریباًاسّی باشندے عمارت کے اندر پھنس کر کوئلہ ہوگئے اور ستّر افراد جھلس کر زخمی ہوگئے۔ آگ ساٹھ گھنٹے تک لگی رہی آخر آگ بجھانے والی پینتالیس گاڑیوں اور ان کے عملے کے سینکڑوں افرادنے اس پر قابو پایا۔ اس واقعہ نے پورے مغربی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس آگ کا گھاؤ ان لوگوں کو برسہا برس کرب میں مبتلا رکھے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے چھیانوے افراد آج سے اٹھائیس سال پہلے ایک بڑے مجمع کی بھگدڑ میں کچل کر مرگئے تھے۔ آج تک ملک کا عدالتی نظام تن دہی سے یہ طے کرنے میں لگا ہوا ہے کہ اس واقعہ کا اصل ذمہ دار کون تھا۔ او رجب تک فیصلہ نہیں ہوجائے گا، یہ لوگ چین سے بیٹھنے والے نہیں۔
لندن کی چوبیس منزلہ عمارت کے جل کر راکھ ہوجانے کے واقعہ کو بارہ دن گزرے تھے کہ آتش زدگی کا ایک سانحہ پاکستان پر بجلی بن کر گرا۔ ایسا دل خراش المیہ کہ بیان کرنے کے لئے وہ کلیجہ کہاں سے لایا جائے۔ تفصیل میں جاتے ہوئے بھی دل پر گہرا گھاؤ لگتا ہے۔ شہر بہاولپور کے قریب پٹرول سے لبا لب بھرا ہوا ایک تیز رفتار ٹینکر ایک موڑ کاٹتے ہوئے الٹ گیا اور اس میں بھرا ہوا پٹرول سڑک پہ بہہ نکلا۔ بس پھر موت نے جو وحشیانہ رقص کیا اس کا منظر ذہن سے جس قدر جلد رفع ہوجائے ، دل کو اتنا ہی سکون ملے۔ کہتے ہیں کہ ایک مجمع سڑک پر بہنے والا تیل اکٹھا کرنے لگا۔ لوگ گھروں سے خالی برتن لے آئے ، کچھ لوگ اپنی کاروں اور موٹر سائیکلوں میںوہی پٹرول بھرنے لگے ۔ اب دور کھڑے ہوئے لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کر چلّاتے رہے کہ بھاگو، اب آگ بھڑکنے ہی والی ہے۔ مگر ان کے کاندھوں پر سوار موت کے بھوت نے اپنی ٹانگیں گردنوں کے گرد ڈال دی تھیں وہ اپنے خالی برتنوں کو ہلاکت کے اسباب سے بھرنے میں دیوانہ وار مصروف رہے۔اور ابھی اس مجمع میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوئے ہی تھے کہ کہتے ہیں قریب کھڑے کسی شخص نے بڑی شان سے اپنی سگریٹ سلگائی۔ اور پھر جو ہوا ، دعا ہی کر سکتے ہیں کہ پھر کبھی نہ ہو۔ اس بھک سے بھڑکنے والے شعلے نے ایک سو ساٹھ کے قریب افراد کو دیکھتے دیکھتے جلا کر کوئلہ کردیا، یوں کہ لاشوں کو شناخت کرنا مشکل تھا۔ اس مقام پر آج تک ماتم بپا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دو دن بعد قوم نے عید منائی اورکچھ لوگوں نے تو یوں منائی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اب کیا ہوگا۔ کچھ روز اس کی بات چلے گی اوروہاں تک چلے گی جہاں منظر دھندلا جاتا ہے اور جہاں آواز مدھم پڑ جاتی ہے۔ جن کے گھر اجڑ گئے ، ان کے ماتم کی صدائوں کو بھی کوئی دن جاتا ہے، وقت کے جھونکے اڑا لے جائیں گے ، بالکل اسی طرح جیسے کراچی اور لاہور کی دو فیکٹریوں میں آگ لگی تھی اورڈھائی سو سے زیادہ افراد بھسم ہو گئے تھے اور زخمیوں کی تعداد چھ سو سے کم نہ تھی۔ اندر مرنے والے مدد کے لئے چلّا رہے تھے اور ان کے بال بچّے باہرکھڑے اپنی بے بسی پرپھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔یہ بات گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار بارہ کی ہے۔ کوئی بہت پرانی بات نہیں مگر اب کیا ہے؟۔ کچھ عرصے سیاسی دنگل ہوا پھر وہ بھی بند ہوگیا۔ اب اجاڑ گھروں میں بیٹھے بال بچّوں کے سوا کوئی ان کی بات بھی نہیں کرتا۔
اب کچھ عرصے پٹرول ٹینکر کے واقعے کی بات چلے گی۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ مفلسی کا شاخسانہ تھا۔ کچھ یہ فیصلہ سنائیں گے کہ یہ کم علمی اور جہالت کی سزا تھی۔ کہیں کہیں بے روزگاری کو اس کا سبب ٹھہرا یا جائے گا۔ ٹینکر چلتے رہیں گے، موڑ کاٹتے رہیں گے، کہیں لڑکھڑائیں گے اور کیا عجب کہ الٹ بھی جائیں۔ کوئی روک تھام نہیں ہوگی۔ کوئی تدبیر نہیں ہوگی۔ کوئی مداوا زیر غور نہیں آنے والا، کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جانے والا ۔ کسی احتجاج کی لہر نہیں اٹھے گی، کوئی مطالبے کا شور سننے میں نہیں آئے گا۔ دنیا کا کاروبار جس ڈھب سے چل رہا ہے اسی ڈگر پر چلتا رہے گا۔ بس یہ ضرور ہے کہ اس موت کو حادثاتی موت قرار دے دیا جائے گا جو محض اتفاق سے ہو گئی۔
مگر اس موت کو کون سے خانے میں رکھا جائے گا جو ٹینکر کے واقعہ سے چند گھنٹے پہلے پارا چنار اور کوئٹہ پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ جہاں دو دھماکے کوئی تیس لاشیں گرا گئے۔ یہ اتفاق نہ تھا۔ یہ جان بوجھ کر اور نشانہ تاک کر مارے جانے والے بے قصور لوگ تھے۔ یہ تھا درحقیقت جہالت اور شقاوت کا شاہکار۔یوں لگتا ہے کہ فساد بدستور جاری ہے، اسے رد کرنا دشوار ہوا جاتا ہے۔

 

.

تازہ ترین