• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسی سال مئی کے وسط میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کہنے لگے’’قوم ہر معاملے میں فوج کی طرف دیکھتی ہے، باقی ادارے کیا کررہے ہیں، اگر ہر ادارہ اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرے تو حالات یقیناً مختلف ہوں، فوج کو بہت ذمہ داریاں ادا کرنا پڑرہی ہیں۔ ہمیں دشمنوں کے ساتھ ملکی سرحدوں پر بھی لڑنا پڑرہا ہے اور ملک کے اندر بھی ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتیں گے۔ ہم پاکستان کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنائیں گے، ہمیں پاکستان اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے، میرے بہت سے جوان پیارے ملک کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، فوج، قوم کے ساتھ ہرمشکل میں کھڑی ہے، ہم قوم کو کبھی مایوس نہیں کریں گے‘‘۔ اب قریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد جنرل باجوہ کی تازہ گفتگو نے قوم کے جذبوں کو جوان کردیا ہے۔ انہوں نے دو روز قبل تمام مسالک کے علماء سے ملاقات کی، کہنے لگے’’مسلک کوئی بھی ہو، شہید تو ہمارے ہیں، سانحہ پارا چنار عظیم نقصان ہے، متاثرین کی ہر ممکن مدد کریں گے، ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، دہشت گردی کو فرقہ واریت کا رنگ دینا افسوسناک ہے،دشمن ہمیں تقسیم کرنے میں ناکام ہوگئے تو اب ہمیں فرقہ واریت اور نسلی تعصب کے ذریعے تقسیم کرنے کی سازش کررہے ہیں، اس کا جواب ہمیں قومی یکجہتی سے دینا چاہئے، دشمنوں کی ویب سائٹ کے ذریعے بدنام کرنے کی سازش کا ادراک ہونا چاہئے‘‘۔
دو روز پہلے جنرل باجوہ نے جو باتیں کیں، یہ باتیں قومی سیاسی قیادت کو کرنی چاہئے تھیں، ملک کے وزیر اعظم کا فرض تھا کہ وہ قوم کو حوصلہ دیتے، انہیں پارا چنار اور کوئٹہ بھی جانا چاہئے تھا، ان کا وزیر داخلہ پتا نہیں کہاں لاپتا ہے۔ وزیر اعظم کا بہاولپور جاکر باقی جگہوں پر نہ جانا، کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، دوسرے صوبوں میں بسنے والے لوگ کیا سوچیں گے، یہ وزیر اعظم نے کبھی سوچا ہی نہیں، نہ مشیروں نے کبھی ملک کے سربراہ کو بتانے کی کوشش کی۔ اسی لئے تو پارا چنار کے لوگ سڑک پر لاشیں رکھ کر بیٹھ گئے، ا ن کا مطالبہ تھا کہ ہمیں صرف آرمی چیف کی تسلی چاہئے، یہ ہوتا ہے قیاد ت پر اعتماد۔کہاں گئے لیڈر نہ وزیروں کو فرصت کہ وہ پارا چنار جاتے، نہ ترجمانوں کو توفیق کہ وہ فرقہ واریت سے نکل کر قومی یکجہتی کا درس دیتے، یہ مگر کیسے ہوتا، ترجمان تو ایک خاندان کی صفائیوں پر لگے ہوئے ہیں، رہی بات صوبائی تعصب کی تو کسی روز1989ءکا ایک واقعہ لکھ دوں گا جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف سانگلہ ہل میں ایک افتتاح کے بعد لاہور جارہے تھے، انہوں نے راستے میں اپنی کابینہ کے ایک اہم رکن سے کیا کچھ کہا تھا۔
سانحہ احمد پور شرقیہ کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے ارشاد کیا’’ملک میں غربت اور ناخواندگی، ستر سالہ کرپشن کی وجہ سے ہے‘‘بالکل درست کہا آپ نے مگر پچھلے پینتیس چالیس سال سے تو حکمرانی میں آپ ہیں،1981ءمیں تو نواز شریف پنجاب کے خزانے پر براجمان ہوگئے تھے پھر وزارت اعلیٰ دو مرتبہ حصے میں آئی، تین دفعہ وہ وزیر اعظم بنے، تین مرتبہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے۔ کرپشن کی داستانیں آپ کی دراز ہیں، ان کے قصے ملک تو ملک رہا، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، کارکردگی آپ کی یہ ہے کہ پورے بہاولپور ڈویژن میں کوئی برن یونٹ ہی نہیں تھا، لوگ صحت اور تعلیم تو کیا کھانے کو ترس رہے ہیں۔ پتا نہیں شہباز شریف کسے بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں، 80ء کی ابتداء ہی میں شریف خاندان اقتدار میں آگیا تھا، ضیاءالحق دور میں 80ء کے بعد85ءسے جو نام نہاد جمہوریت شروع ہوئی اس میں کرپشن کے بے لگام گھوڑے نظر آئے، مافیا کی سیاست بھی80ء کے بعد شروع ہوئی۔ آج پاکستان میں غربت ہے تو اس کی ذمہ دار قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن ہے، اقتدار میں تو مسلم لیگ رہی یا پھر پیپلز پارٹی، کوئی اور کرپشن کیسے کرسکتا تھا۔ ایک جے آئی ٹی ہضم نہیں ہورہی ، اس پر الزامات کی بارش کون کررہا ہے، حالانکہ پتا بھی ہے کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی ہے مگر سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والوں کو اس کی کیا پروا۔
ایک تازہ تصویر سے کئی باتیں یاد آگئی ہیں، یہ تصویر مریم نواز، کیپٹن صفدر اور ان کے صاحبزادے جنید صفدر کی ہے۔ جنید صفدر نے گریجویشن کی ہے، یہ تصویر ا س مرحلے کی ہے۔ اب اگر کسی نے جے آئی ٹی میں یہ سوالات کردئیے کہ جنید صفدر کے تعلیمی اخراجات کہاں سے ادا ہوئے، ان کی فیسیں اور رہنے سہنے کا خرچ کہاں سے آتا رہا، اس مد میں پیسہ کہاں سے آیاتو کیا جواب دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے سے پہلے کچھ سیاستدان ساز باز کررہے ہیں، ان سازشوں میں بہت کچھ شامل ہے، کچھ سیاستدان یہ بھی تجویز دے رہے ہیں کہ کسی طرح مشترکہ اجلاس بلا کر فیصلے پر فیصلہ سنادیا جائے۔ ایسا سوچنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جن کے کزن نے کوئٹہ میں ایک پولیس اہلکار کو کچل دیا۔ ایک اور سازش پاکستان کے خلاف بیرون ملک تیار ہورہی ہے۔ ندیم نصرت نے کچھ امریکی سینیٹرز سے ملاقات کی ہے، یہ سینیٹرز بھارتی لابی کے ہیں۔ ندیم نصرت کی ملاقات نریندر مودی سے بھی ہوئی ہے، مودی کی گفتگو دو اور پاکستانی سیاستدانوں سے ہوئی ہے، ایک پوری سازش تیار ہے مگر افسوس کہ اس میں پاکستان کے اندر سے سیاستدان بھی شامل ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کرکٹ میچ کے موقع پر اوول کے باہر ایک پاکستانی نامور جوڑے کے ساتھ جو ہوا اس کو سمجھنے کے لئے فرحتؔ زاہد کا شعر کافی ہے کہ؎
یہ چڑیا چہچہاتی تھی بہت اڑنے سے پہلے
سفر کے خواب دیکھے تھے سفر کرنے سے پہلے

 

.

تازہ ترین