• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے عوام ان اطلاعات کے بعد سکتے میں آگئے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی ملک میں رہائش اور کاروبار کرنے اور ان کو دیگر سہولتیں دینے کے سلسلے میں قانون تیار کرلیا گیاہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکز نے اس قانون کا مسودہ صوبائی حکومتوں کو ارسال کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی رائے دیں‘ اور صوبوں کے بارے میں تو علم نہیں کہ ان کا اس قانون کے بارے میں کیا موقف ہے مگر سندھ حکومت نے اس قانون کی مخالفت کی ہے اور اس قانون پر غور کرنے اور اس پر سندھ کا موقف تیار کرنے کے لئے سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی ہے، اس سے پہلے کہ میں مرکز کی طرف سے تیار کیے گئے قانون اور اس سلسلے میں سندھ حکومت کے فوری موقف کی خاص خاص باتیں پیش کروں۔ میں سندھ کے عوام میں اس قانون کے خلاف امکانی طور پر پیدا ہونے والے ردعمل کا ذکر کروں گا۔ سندھ کے عوام پہلے سے ہی سندھ ،کراچی میں غیر ملکی غیر قانونی پناہ گزینوں کی موجودگی کی وجہ سے سندھ اور کراچی پر پڑنے والے غیر معمولی دبائو سے سخت بیزار ہیں۔ میں اس موضوع پر ماضی میں کئی کالم لکھ چکا ہوں‘ ان لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی پناہ گزینوں کی کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں موجودگی کی وجہ سے سندھ کی معیشت پر نہ صرف بے پناہ دبائو ہے بلکہ مجموعی طور پر سندھ کے سارے معاشرے پر شدید دبائو ہے‘ اس بات کا ذکر تو سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں سماعت کے دوران 2010 ء اور 2011 ء میں انتہائی تشویش کے انداز میں کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنی رولنگز میں کہا تھا کہ خاص طور پر کراچی میں اندازہََ10 سے 12 لاکھ غیر ملکی غیر قانونی پناہ گزین آباد ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے رائے ظاہر کی تھی کہ آئندہ انتخابات سے پہلے غیر ملکی غیر قانونی پناہ گزینوں کو اپنے اپنے ملک واپس بھیجنا ہوگا۔ کیا مرکزی حکومت کو سپریم کورٹ کی رائے کا بھی کوئی احترام نہیں؟ جبکہ سندھ کے کئی سیاسی عناصر اور دانشور مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اول تو مرکزی حکومت فوری طور پر ان لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی پناہ گزینوں کو فوری طور پر اپنے اپنے ملک واپس بھیجنے کا اہتمام کرے جب تک ایسا ہو تب تک ان غیر قانونی پناہ گزینوں پر آنے والے اخراجات مرکزی حکومت برداشت کرے کیونکہ سندھ کی معیشت ان غیر ملکی غیر قانونی پناہ گزینوں پر آنے والے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی۔ مجموعی طور پر سارا پاکستان بڑھتی ہوئی آبادی کے شدید دبائو میں ہے۔ خاص طور پر کراچی بڑھتی ہوئی آبادی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ کیا مرکزی حکومت کو کراچی کے مسائل کا کوئی احساس نہیں؟ مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے بلوچستان کے ایک سینیٹر نے بلوچستان میں بڑی تعداد میں غیر ملکی غیر قانونی پناہ گزینوں کا خاص طور پر ذکر کیا تھا اور توجہ دلائی تھی کہ جس طرح ہندوستان کے آئین میں ہے کہ کوئی غیر کشمیری کشمیر میں آکر نہ مستقل رہائش اختیار کرسکتا ہے اور نہ کوئی جائیداد وغیرہ خرید کرسکتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کے آئین میں بھی یہ شق درج کی جائے کہ کوئی غیر ملکی پاکستان میں نہ مستقل رہائش اختیار کرسکتا ہے اور نہ کوئی جائیداد خرید سکتا ہے۔ یہی مطالبہ سندھ کے لئے بھی کچھ عناصر نے کیا تھا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مرکزی حکومت اس قانون کا مسودہ صوبوں کو بھیجنے کے بجائے یہ قانون بنانے سے پہلے صوبوں کو اعتماد لیتی مگر اس ملک میں صوبوں کی اور خاص طور پر چھوٹے صوبوں کی آخر اہمیت کیا ہے۔ یہاں میں مرکزی حکومت کی توجہ خاص طور پر سعودی عرب میں اس سلسلے میں رائج قوانین کی طرف مبذول کرائوں گا۔ کیا اس طرح کوئی غیر ملکی سعودی عرب میں جاکر رہائش اختیار کرسکتا ہے اور وہاں جائیداد خرید سکتا ہے۔؟ کیا یہ اطلاع درست نہیں ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی سعودی عرب میں جاکر کوئی بزنس کرتا ہے تو اسے سعودی عرب کے کسی شیخ کا سر ٹیفکیٹ مطلوب ہوتا ہے کہ یہ غیر ملکی ان کے پاس کام کرسکتا ہے تو پاکستان میں بھی ایسے قوانین کیوں نہیں بنائے جاتے۔ یہ بات واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر یہ قانون مسلط کیا گیا تو سندھ کے عوام اس قانون کو کسی طور پر قبول نہیں کریں گے اور اس کے خلاف سندھ میں ہوسکتا ہے کہ ایسا شدید ردعمل ہو کہ جس کی عام طور پر توقع نہیں کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت نے اس قانون کا جو مسودہ صوبوں کو ارسال کیا ہے اس کی خاص خاص باتیں مندرجہ ذیل ہیں۔ رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی ملک میں رہائش بشمول کاروبار کرنے و دیگر سہولتیں دینے کے لئے قانون تیار کیا گیاہے‘ اس قانون کے تحت رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو ملک میں کہیں بھی جائیداد خرید نے کا حق ہوگا‘ پناہ گزینوں کے بچوں کو تعلیم کی ساری سہولتیں میسر ہوں گی‘ اس قانون کے تحت رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو پاکستان کے سارے صوبوں میں آسانی سے نقل و حرکت کرنے‘ رہائش اختیار کرنے اور کسی بھی دوسرے ملک جانے کے لئے پاکستان کے سفری ڈاکیومنٹس جاری کرنے‘ ان کے بچوں کو تعلیم کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے اہم ترین حقوق حاصل ہوں گے جبکہ صوبائی حکومتیں صوبوں میں رہائش اختیار کرنے والے ان پناہ گزینوں کو زبردستی اپنے صوبوں سے نہیں نکال سکیں گی‘ رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو 5 سال کے لئے پناہ گزین کارڈ جاری کیے جائیں گے‘ اس کے تحت وہ قانونی طور پر پاکستان میں رہ سکیں گے‘ اس کارڈ کی مدت ختم ہونے پر ان کو یہ کارڈ دوبارہ جاری ہوسکے گا‘ ان پناہ گزینوں کو پاکستان میں رہائش اختیار کرنے اور کاروبار کرنے پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ کا موقف ہے کہ پہلے ملک و صوبے میں رہنے والے غیر قانونی پناہ گزینوں کو ملک سے باہر نکالا جائے‘ اس کے بعد ہی ایسے قانون پر غور کیا جائے، اس قانونی مسودے کا جائزہ لینے کے لئے حکومت سندھ نے سندھ کے سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں جو کمیٹی بنائی ہے اسکے دیگر ممبران میں سندھ کے سیکرٹری برائے قانون‘ پراسیکیوٹر جنرل اور سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت کے موقف کی تفصیلات معلوم ہونے کے بعد اس پر مزید تبصرہ کیا جائے گا۔ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ اس سلسلے میں سخت سے سخت موقف اختیار کرے‘ کیا مناسب نہیں ہوگا کہ سندھ حکومت یہ ایشو بحث کے لئے سندھ اسمبلی میں پیش کرے اور اس سلسلے میں ایک سخت قرارداد منظور کی جائے‘ اس مرحلے پر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ مرکزی حکومت میں سندھ سے تعلق رکھنے والے وزراء کیا موقف اختیار کرتے ہیں؟

 

.

تازہ ترین