• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے آئی ٹی کا طریقہ کار مشکوک،حکمراں خاندان بند گلی میں آگیا،تجزیہ کار

کراچی(جنگ نیوز)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی پر اٹھنے والے اعتراضات کی وجہ غلط حکومتی حکمت عملی اور تفتیشی طریقہ کار ہے،جے آئی ٹی اپنے طریقہ کار کی وجہ سے مشکوک ہوگئی ہے، شریف خاندان بند گلی میں کھڑا ہے ،جے آئی ٹی پر تنقیدکرنا حکومت کی غلط حکمت عملی اور نااہلی تھی ،موجودہ صورتحال میں حکومت کے پاس جے آئی ٹی پر سوالات اٹھانے کے کوئی آپشن نہیں تھا،  ٹرمپ اور مودی کا ڈی این اے میچ کرگیا ،امریکا اور بھارت کا پاکستان کے خلاف محاذ بننے جارہا ہے، سید صلاح الدین عالمی دہشتگرد کی تعریف میں کہیں فٹ نہیں ہوتے،امریکا اور بھارت نہ پاکستان کے خلاف محاذ بنارہے ہیں اور نہ ہی بناسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار رانا جواد،مظہر عباس، امتیاز عالم، حفیظ اللہ نیازی،  شہزاد چوہدری اور رحیم اللہ یوسف زئی نے جیو نیوز کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال جے آئی ٹی تفتیش پر اٹھنے والے سوالات! وجہ کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے رانا جواد نے کہا کہ جے آئی ٹی پر اعتراضات کا سلسلہ میڈیا میں رپورٹس آنے کے بعد شروع ہوا ہے، سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی بنانے کے فیصلے کو ابتداء میں ن لیگ اور شریف خاندان نے ویلکم کیا تھا،جے آئی ٹی بننے کے بعد میڈیا میں آیا کہ کس کا کس کے ساتھ رابطہ ہے، جے آئی ٹی واٹس ایپ کال کی کہانی بھی میڈیا میں آئی، میڈیا میں ہی یہ رپورٹس آئیں کہ جے آئی ٹی کے ارکان کو خاص طریقے سے منتخب کیا گیا ہے، جے آئی ٹی میں ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جو شاید سروس میں نہیں ہیں، ان کی ایک تاریخ ہے اور شاید کچھ عناد بھی ہے، اس حوالے سے حکومت کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے، میڈیا رپورٹس کے بعد ہی حکومت نے بھی ان باتوں کو استعمال کیا، اس وقت  ایک شخص کی ذات کا نہیں وزیراعظم کے عہدے کی ساکھ کا سوال ہے اور اسی تناظر میں سب کچھ ہورہا ہے۔مظہر عباس نے کہا کہ حکومت پاناما کیس میں تمام چیزوں میں اندازہ لگانے میں غلطی کرگئی ہے، حکومت ابھی تک فیصلہ نہیں کرپارہی کہ انہیں جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کرنا ہے یا اسے قبول کرنا ہے، شریف خاندان نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اسے تسلیم کرلیا ہے، ن لیگ نے جے آئی ٹی کو کسی مرحلے پر چیلنج نہیں کیا صرف طریقہ کار پر اعتراضات کیے، سپریم کورٹ کے فیصلے میںبات واضح ہوگئی تھی لیکن ن لیگ اور نواز شریف اسے سمجھ نہیں سکے، ن لیگ کا خیال تھا کہ جے آئی ٹی انہیں بیل آئوٹ کردے گی، اگر حکومت میڈیا رپورٹس پر جے آئی ٹی سے متعلق فیصلہ کرے گی تو پھر یہاں حکومت کی ناقص حکمت عملی نظر آتی ہے، حکومت کو یہی نہیں پتا تھا کہ جے آئی ٹی میں جن ارکان کو نامزد کیا جارہا ہے ان کا پس منظر کیا ہے ، حکومت کے پاس اب کوئی آپشن نہیں ہے، سپریم کورٹ کا بنچ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق فیصلہ کرے گا، نواز شریف خود بھی پاکستان میں حکومتیں تبدیل کرنے کی سازشوں کا حصہ رہے ہیں۔امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ پاناما کیس قانونی سے زیادہ سیاسی اور میڈیا کا کیس بن گیا ہے، ن لیگ کی عالمی سازش کی تھیوری غلط ہے کیونکہ نواز شریف کو زیادہ عالمی حمایت حاصل ہے، عمران خان کا یہ بیان بہت خوفناک ہے کہ جے آئی ٹی ایسے ہی ہے جیسے سپریم کورٹ ہے، اس وقت آئینی نظام کے مختلف بازوئوں کے درمیان خانہ جنگی کی کیفیت نظر آرہی ہے۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنے طریقہ کار کی وجہ سے مشکوک ہوگئی ہے، دو ارکان نے جے آئی ٹی کیلئے اپنی سروسز خود پیش کی تھیں، کچھ سیاستدانوں اور مختلف اداروں نے جے آئی ٹی کو مقدس گائے کا درجہ دینے کی کوشش کی، جے آئی ٹی اب جو بھی فیصلہ کرے اسے کوئی نہیں مانے گا، جے آئی ٹی کا کنڈکٹ اتنی نچلی سطح کا ہے کہ اس پر کسی کو یقین نہیں رہا ہے۔شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت پاناما اسکینڈل آنے کے بعد سے ہی نالائقی کا اظہار کررہی ہے، حکومت نے پاناما پر کسی دستیاب سیاسی آپشن کو استعمال نہیں کیا، شریف خاندان ایسی بند گلی میں کھڑا ہے جہاں تین ججوں کے بنچ نے ان کا اور ملک کے مقدر کا تعین کرنا ہے، اب حکومت کے پاس جے آئی ٹی پر سوالات اٹھانے کے کوئی آپشن نہیں تھا، جے آئی ٹی پر تنقیدکرنا حکومت کی غلط حکمت عملی اور نااہلی تھی کیونکہ فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ پاناما کیس داخلی مسئلہ ہے اس میں کوئی بین الاقوامی عنصر نہیں ہے، ملک کے اندر اداروں کے درمیان تصادم ہے اور مختلف ادارے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں، حکومت کو ہٹانے کی بات باہر سے نہیں ملک کے اندر سے ہورہی ہے، سپریم کورٹ جے آئی ٹی کے پیچھے کھڑی ہوئی ہے، حکومت نے سارے معاملہ کا غلط اندازہ لگایا ہے، جے آئی ٹی پر اٹھنے والے اعتراضات کی وجہ غلط حکومتی حکمت عملی اور تفتیشی طریقہ کار ہے۔

تازہ ترین