• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی (بابر علی اعوان /اسٹاف رپورٹر) مون سون کی پہلی بارش نے بے گھر بچوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے ۔ شہرکے مختلف علاقوں  میں بے گھر بچے سر چھپانے کےلئے سائبان کی تلاش میں پریشان پھر رہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ان کی مشکلات کو دور کرنے کےلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے ۔ حکومت سندھ کی جانب سے صوبے میں بے گھر بچوں کی بحالی کے لئے ایک مرکز بھی قائم نہیں کیا گیا۔ صوبے میں آج بھی ہزاروں بے گھر بچے کھلے آسمان تلے زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ چھت اور نگرانی میسر نہ ہونے سے یہ بچے نہ صرف نشے کی لت میں پڑجاتے ہیں بلکے جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔جرائم پیشہ افرادان معصوم بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کےلئےاستعمال کرتے ہیں اوراکثر وبیشتر انہیں ذیادتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے لیکن انہیں ایک کارآمد شہری بنانے کےلئے حکومت سندھ کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی ۔واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے سال 2010-11میں 300 بے گھر بچوں اور 200 بے گھر بچوں کے لئے کورنگی میں 2بحالی مراکز کے قیام کےلئے 31کروڑ 45لاکھ روپے مختص کیے تھے۔ ان مراکز کو 2014 میں فعال ہونا تھا لیکن تاحال ان کی عمارت زیر تعمیر ہےجس سے بےگھر بچوں کو چھت میسر نہیں ہوپارہی اوپر سے مون سون کی پہلی بارش نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے ۔ یاد رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق صوبے میں اس وقت  30ہزار بے گھر بچے موجود ہیں جو حکومتی توجہ کےمنتظر ہیں لیکن حکومتی بے حسی ان معصوم بچوں کو معاشرے پر بوجھ بنا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ کا موقف جاننے کےلئے وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر برائے سماجی بہبود شمیم ممتاز سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوششوں سے کورنگی میں بحالی مراکز کی عمارت تعمیر کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں تاخیر ورکس اینڈ سروسز ڈیپارٹمنٹ کی وجہ سے ہو رہی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ سے قبل متعدد بار میٹنگز کیں تھیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں عمارت کی تعمیر مکمل ہو جائے گی اور یونٹ فعال کر دیا جائے گا ان کا مذید کہنا تھا کہ فی الوقت بے گھر بچوں کو شانتی نگر کے دارلاطفال اور دارلبنات میں رکھا جاسکتا ہے ہماری کوشش ہے کہ بے گھر بچوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جائیں ۔

تازہ ترین