• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیاقت دولتانہ سے متعلق واٹس ایپ میسیج!!...ڈیٹ لائن لندن، آصف ڈار

یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا کی ترقی سے لوگوں کے اندر بہت زیادہ شعور پیدا ہوگیا ہے اور انہیں وہ خبریں بھی چند سیکنڈز میں مل جاتی ہیں جن کو ماضی میں ظاہر نہیں کیا جاتا تھا۔ فیس بک، ٹیوٹر، وٹس ایپ وغیرہ ایسے میڈیم ہیں کہ جو موبائل فون پر موجود ہیں۔ خاص طور پر لوگوں نے وٹس ایپ کو کاروباری اور ذاتی تشہیر سمیت مختلف پیغامات، تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے کے لئے بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ وٹس ایپ کے کئی کئی گروپ بنادیئے گئے ہیں، تاہم ان گروپوں میں عام طور پر وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو دوسرے گروپوں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ گروپوں کے ایڈمن اپنی ساری چیزیں تمام گروپوں پر شیئر کردیتے ہیں۔ میں بھی کئی گروپوں میں شامل ہوں، ان تمام گروپوں کی تصاویر اور ویڈیوز مل کر میرا فون بلاک کردیتی ہیں اور اسے کھولنے کے لئے مجھے کوئی نہ کوئی ایپ ڈیلیٹ کرنا پڑتی ہے۔ میں ان گروپوں کو بلاک کرسکتا ہوں مگر مروت کے مارے کبھی ایسا کرنے کی جرات نہیں کی تاہم اس کے بجائے اب میں نے اپنا موبائل ڈیٹا بند کردیا ہے مگر جب میں دن کے کسی پہر میں ڈیٹا کھولتا ہوں تو کئی سو وٹس ایپ میرے فون پر یلغار کردیتے ہیں۔اس قدر پیغامات کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات انتہائی اہم میسج ان کے نیچے دب جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسی طرح کا ایک اہم میسج کئی پیغامات کے نیچے دب گیا اور میں نے وہ میسج ایک ہفتے بعد اس وقت دیکھا یہ میسج سینئرصحافی افتخار قیصر صاحب کا تھا جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ’’ہمارے دوست اور سینئر صحافی لیاقت دولتانہ کو دل، گردوں اور جگر سمیت چار ٹرانسپلانٹس کی ضرورت ہے (کیونکہ ان اعضاء نے کام کرنا تقریباً چھوڑ دیا ہے)وہ رائل فری ہسپتال ہمیسڈ (لندن)میں داخل ہیں۔ ان کے پھیپھڑے بھی خراب ہوچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹرز اب ان کے مزید آپریشن نہیں کرسکیں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے چند آخری دن گزار رہے ہیں۔ آپ کی ایک فون کال ان کی دھاڑس بندھا سکتی ہے، افتخار قیصر‘‘ مجھے معلوم تھا کہ 20سال قبل کینسر جیسے موذی مرض کو شکست دینے والا لیاقت دولتانہ اب ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا منتظر ہے۔ کیونکہ چند برس قبل ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ اس کا دل سویا ہوا ہے۔ مگر گردے، جگر اور پھیپھڑوں کے بارے میں اطلاع افتخار قیصر صاحب کی جانب سے ملی۔ میں ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ لیاقت دولتانہ کو فون کرکے کیا کہوں؟ یہ کہ تم جلد ٹھیک ہوجائو گے؟ میں وہ الفاظ کہاں سے لائوں گا کہ اسے تسلی دے سکوں۔ دوچار دن اسی کشمکش میں تھا کہ فون کروں یا نہ کروں کہ افتخار قیصر صاحب کی ایک ای میل آئی جس میں لکھا تھا کہ لیاقت دولتانہ دارفانی سے کوچ کرگیا ہے!اب میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ پیغام وٹس ایپ کے طوفان تلے نہ دبا ہوتا اور میں ایسے وقت پر دیکھ لیتا تو شاید ان کو فون بھی کردیا ہوتا۔ اگرچہ میں نے لیاقت دولتانہ کے ساتھ باقاعدہ طور پر بطور صحافی کام نہیں کیا مگر ان کے ساتھ میری بہت زیادہ ملاقاتیں تھیں۔ ان میں ایک مرتبہ ان کے ساتھ برمنگھم کا سفر بھی شامل تھا جو عمران منصور کے نکاح میں شرکت کے لئے کیا گیا تھا۔وہ اپنے کینسر سے ریکوری اور ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے بارے میں انتہائی نڈر ہوکر بات کیا کرتے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ وہ اس بیماری سے بھی سرخرو ہوکر نکلیں گے۔ مگر ان کی زندگی شاید اتنی ہی لکھی تھی۔ لیاقت دولتانہ انتہائی سلجھےہوئے انسان تھے اور وہ کئی برس تک جنگ لندن میں کام کرتے رہے۔ انہوں نے جنگ فورم کے لئے بھی بہت سا کام کیا۔ تاہم 20سال قبل کینسر کی وجہ سے انہوں نے اپنی صحافتی سرگرمیاں محدود کردیں۔ البتہ وہ جیوٹی وی کے پروگرام جنگ فورم کے لئے بھی حسب توفیق خدمات انجام دیتے رہے اور اس پروگرام کا باقاعدہ حصہ رہے۔ اس کے لئے ریسرچ وغیرہ کا کام بھی کرتے تھے۔ لندن میں ان کے قریبی دوستوں کا حلقہ بھی بہت وسیع تھا، ان کے ساتھ وہ شامیں گزارتے تھے۔

 

.

تازہ ترین