• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوپہر کے کھانے کے وقفے میں ہم سب ایک بڑے ہال میں جمع تھے۔ فرش سے چھت تک کی شیشے کی دیوار سے نظر آنے والا منظر ہمیں اپنی طرف متوجہ کررہا تھا۔ اور یہ وہ منظر تھا جو یادوں کے البم میں ہمیشہ سجا رہے گا۔ یورپ کی داستانوں میں بہنے والا دریا ڈینیوب اور اس پار کی سرسبز پہاڑی پر بنا ایک تاریخی قلعہ۔ جی ہاں، میں بڈا پیسٹ کی بات کررہا ہوں کہ جو ہنگری کا دارالحکومت ہے۔ اور میں وہاں اوپن سوسائٹی کی تحریک سے منسلک تنظیموں کی ایک کانفرنس میں شریک تھا۔ گویا وہ دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے ایسے افراد کا اجتماع تھا کہ جو جمہوری آزادیوں، انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے طرف دار ہیں۔ دریائوں سے اپنے عشق کا ذکر میں اپنے ان ’’سفر نامچوں‘‘ میں کرچکا ہوں جو ’’جنگ‘‘ کے سنڈے ایڈیشن میں کئی سال پہلے چھپتے رہے تھے۔میرا کہنا ہے کہ میں دریا جمع کرتا ہوں اور ڈینیوب کا ذکر میں نے سب سے پہلے انسانوں میں پڑھا تھا۔ میں اس دریا سے کئی بار مل چکا ہوں لیکن بڈاپیسٹ کو اب پہلی بار دیکھا۔ یہ منظر کشی میں نے صرف اس لئے کی کہ آپ اندازہ لگا سکیں کہ میں کسی اور ماحول، کسی اور عالم میں تھا۔ وہ گزشتہ ہفتے کی پیر کا دن تھا۔ بہرحال لنچ کے دوران کسی نے اچانک میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘۔ میں ’’جی ہاں‘‘ کہتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔ اس شخص نے کہ جو بظاہر یورپ کے کسی ملک کا شہری تھا انتہائی گرمجوشی سے میرا ہاتھ تھاما۔ ’’مبارک ہو۔ بہت مبارک ہو۔ آپ لوگوں نے تو کمال کردیا۔‘‘ ایک لمحے کے لئے تو میں ششدر رہ گیا لیکن پھر فوراً سمجھ گیا کہ وہ مجھے ایک دن پہلے کے کرکٹ میچ میں پاکستان کی حیرت انگیز اور شاندار کامیابی پر مبارک باد دے رہے تھے۔ وہ صاحب انگریز نکلے۔ اور کرکٹ کے شناور ۔۔۔۔ چیمپئنز ٹرافی کے سارے میچ وہ دیکھتے رہے تھے اور انڈیا سے ہمارے فائنل کی تمام نزاکتوں اور تاریخی پس منظر کا انہیں علم تھا۔ آس پاس کے جو چند افراد ہماری گفتگو سن رہے تھے، بالکل نہ سمجھ پائے ہوں گے کہ اس جوش اور جذبے اور انہماک کا سبب کیا ہے۔
اب میں آپ کو کیسے بتائوں کہ اس اجنبی لیکن سحر زدہ ماحول میں اس غیر متوقع تہنیت نے مجھے کتنا خوش کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اتوار کا دن سفر میں گزرا اور میں فائنل دیکھ بھی نہ سکا۔ پھر جب اس جیت کی اہمیت اور پورے ملک کے جذبات سے اس کے رشتے کا احساس ہوا تو کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس سے گفتگو ہوسکتی۔ سوشل میڈیا سے پرہیز کی وجہ سے بھی میں خود کو تنہا محسوس کررہا تھا۔ البتہ یہ سوچ مسلسل میرے ساتھ تھی کہ ایسی جیت کیسے ایک عادتاً آزردہ قوم کا حوصلہ بڑھا سکتی ہے اور کیسے بٹے ہوئے لوگوں کو جشن کے ہنگام میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا کرسکتی ہے۔ کم از کم وقتی طور پر تو اتحاد اور سرخوشی کی ایک فضا قائم ہوجاتی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ فٹ بال کے ورلڈ کپ میں کسی ملک کی فتح سے ایک ڈولتی ہوئی حکومت کو سہارا مل گیا۔ جب لوگ بہت خوش ہوتے ہیں تو وہ آسانی سے ناراض نہیں ہوتے۔ میں کیونکہ سفر میں تھا اس لئے مجھے یہ اندازہ نہیں کہ اس جیت کے اجتماعی اور معاشرتی اثرات کس نوعیت کے تھے اور عام لوگوں نے اپنی مسرت کا اظہار کس طرح کیا۔ میں نے تو یہ بھی سوچا کہ کسی ماہر نفسیات سے بات کی جائے کہ مایوسی کے درمیان شادمانی کی ایسی لہر سے عام لوگوں کے موڈ میں کیسی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ اور میڈیا اور سیاسی رہنما امید کے اس پیغام کو کچھ عرصے تک قائم رکھنے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ جیت کی یہ دھمک کم ہوتے ہوتے بھی عید تک تو محسوس کی جائے گی۔ یورپ میں یا ترقی یافتہ ملکوں میں گھومتے پھرتے یہ تاثر ضرور نمایاں ہوتا ہے کہ عام شہری اپنے آپ سے اور اپنی زندگی سے کافی حد تک مطمئن ہیں۔ ان کے چہروں پر اور ان کی حرکات میں بیزاری اور ناراضی کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔
وسطی یورپ میں میں نے جو آٹھ دن گزارے اور جن میں ویانا میں گزارا ہوا وقت بھی شامل ہے ان کا تذکرہ مجھے اپنے موضوع سے دور کرسکتا ہے۔ یہ ایک مسئلہ بھی ہے کہ آپ کہیں بھی ہوں، آپ کے خیالات کی ڈوری پاکستان سے بندھی رہتی ہے۔ اور پھر انڈیا سے فائنل میچ میں اتنی شان سے جیتنا کوئی چھوٹا واقعہ تو نہیں ہے۔ کتنے ایسے معرکے ہم نے سر کئے ہیں؟ آخر 1992 میں ورلڈ کپ کی جیت ہماری تاریخ کی ایک سرخی تو ہے اور اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کی قیادت ہی تو عمران خاں کی کرشمہ سازی کی بنیاد ہے۔ اسی پس منظر میں مجھے یہ لگا کہ زہر آلود سیاسی انتشار کے موسم میں پاکستانیوں کا دل کچھ دنوں کے لئے بہل جائے گا۔ یوں بھی رمضان کے اختتامی ہفتے میں اوراس کے بعد عید کی چھٹیوں میں ہم سب اپنی ذاتی زندگیوں میں الجھے رہتے ہیں اور سیاست کے بازار میں مندی دیکھی جاتی ہے۔ یوں بھی عید کو سیاسی موسم میں تبدیلی کا ایک سگنل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ صورتحال ہی کچھ مختلف ہے۔ اتنی دور سے بھی میں نے دیکھا کہ حالات اور واقعات اور حادثات کا ایک ایسا طوفان برپا ہوا کہ کرکٹ کی جیت اور عید کی خوشی بھی جیسے گہنا گئی۔ عید سے پہلے ہی ایک ہیجان کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ میں سفر میں تھا کہ جب پارا چنار میں دو دھماکے ہوئے۔ اسی دن کوئٹہ میں ایک خودکش حملہ ہوا۔ دہشت گردی کے ایک اور حملے میں کراچی میں چار پولیس اہلکار قتل کردیئے گئے۔ پارا چنار کے سانحے نے چند ایسے سوالات کو جنم دیا ہے کہ جن سے ہم ایک زمانے سے نظریں چراتے رہے ہیں۔ اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ مسلک کوئی بھی ہو، شہید ہمارے ہیں۔
پھر بھی پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے کئی سالوں پر پھیلے واقعات کا کوئی نہ کوئی تعلق اس انتہا پسندی اور عدم برداشت سے بھی ہے جس کے سدباب کے لئے حکمرانوں نے کبھی کوئی فیصلہ کن اقدامات نہیں کئے۔ اس محاذ پر ہم کس مشکل میں ہیں اس کا ایک اشارہ یہ ہے کہ ہمارے سابق آرمی چیف ایک ایسی اسلامی فوج کی قیادت کررہے ہیں جس کا ایک فرقہ وارانہ پہلو بھی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پارا چنار میں اس سال دو دوسرے بڑے دھماکے بھی ہوچکے ہیں۔ لیکن میں پارا چنار کے سانحے کی تفصیلات میں نہیں جاسکتا۔ وہ اس لئے کہ دوسرے کئی منظر اتنی ہی توجہ کے طالب ہیں۔ اور یہ منظر اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ مجھے اپنے ایک پسندیدہ فلمی گیت کا ایک مصرع یاد آرہا ہے۔ وہ گیت آپ نے بھی سنا ہوگا: ’’زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام۔۔۔۔‘‘ اس کے ایک بند کا نوحہ یہ ہے کہ کہ وقت تو رکتا نہیں۔ ایک پل میں آگے گزر جاتا ہے۔ اور وہ مصرع یہ ہے کہ، ’’آدمی ٹھیک سے دیکھ پاتا نہیں اور پردے پہ منظر بدل جاتا ہے‘‘۔ ہماری بھی کچھ یہی مشکل ہے کہ ہم کسی ایک واقعہ یا سانحے کو ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں پاتے کہ ایک نیا بحران یا المیہ ہمارا دامن تھام لیتا ہے۔ اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اب تک اس واقعہ کا تو ذکر ہی نہیں کیا کہ جس نے سب سے زیادہ ہمارا دل دکھایا ہے۔ سو اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ میں نے اپنے یورپ کے دورے کے پردے پر چند تصویریں بنانےکی کوشش کی ہے۔ میں جس دن کراچی سے روانہ ہوا اسی دن چیمپئنز ٹرافی کا فائنل کھیلا گیا۔ یہ خوشی اور امید کا نقطہ عروج تھا۔ لیکن اس کی خبر میں نے اجنبیوں کے درمیان سنی۔ پھر یہ ہوا کہ اپنی واپسی کے فضائی سفر میں اور استنبول میں تین گھنٹوں کے انتظار کے دوران میں نے نہ جانے کتنے بین الاقوامی اخبارات دیکھے۔ کچھ جانے پہچانے، جیسے نیویارک ٹائمز اور فنانشل ٹائمز اور دوسرے کئی مختلف ملکوں اور زبانوں کے۔۔۔ اور ان تمام اخبارات کے پہلے صفحے پر ایک خبر ہماری تھی۔ اور بیشتر میں تصویر بھی۔ آپ سمجھ گئے؟ اس وقت تک آئل ٹینکر سے بہنے والے تیل کی آتش فشاں میں لگ بھگ 125ہلاکتوں کی خبر تھی۔ اب یہ تعداد دو سو کے نزدیک جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اور تب مجھے بالکل اچھا نہ لگتا کہ کوئی اجنبی میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتا:’’کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘

تازہ ترین