• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہی جولائی کا مہینہ تھا۔ اس رات میں نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر سنی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا "میں نہیں میری کرسی مضبوط ہے۔" اس سے دو ہفتوں کے بعد ان کی حکومت اور ان کے خلاف چلنے والی نو ستارہ یا قومی اتحاد تحریک کے درمیان تشدد تیز ہو چکا تھا۔ چاروں فوجوں کے سربراہان اپنے کمانڈر ان چیف اور وزیراعظم سے وفاداری کا اعلان کر چکے تھے۔ ملک کے بڑے شہروں کراچی حیدرآباد، لاہور، ملتان، راولپنڈی، لائل پور میں فوج طلب کر لی گئی تھی لیکن قرائن بتاتے تھے کہ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم (بہرحال جسے میں تب سویلین پاپولر لیکن ڈکٹیٹر ہی مانتا تھا اس سے کیا فرق پڑتا تھا وہ تھے تو اکثر لوگوں کے مقبول لیڈر نا!) اور ا ن کی حکومت کے چل چلائو کا عالم ہے۔ "کیا ہوا اگر میں کام سے تھکنے کے بعد تھوڑی سی پی لیتا ہوں " جیسا مشہور جملہ کہنے والے نے ملک میں شراب پر پابندی لگانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ وہ کئی دنوں سے اس پچ پر کھیل رہےتھا جو ان کی پچ نہیں تھی۔ "نہ تے اساں کوئی نعرہ ماریا نہ تے اساں کوئی جلوس کڈھیا فیر ساڈا نشہ کیویں بند کیتا پٹو صاحب نے" بدین میں ایک موالی کو دہائیاں دیتے ہوئے سنا گیا۔
"ایوب آیا میں نہ بولی، یحییٰ آیا میں نہ بولی، بھٹو آیا میں نہ بولی، پھر بھٹو آیا میں بولی چلائو گولی چلائو گولی" نو ستاروں والی پارٹیوں کی پی این اے والے خواجہ سرائوں کو بھی ایسے نعروں کے ساتھ سڑکوں پر لے آئے تھے۔ بھینسوں کے بھی جلوس نکالے جانے لگے تھے۔ لوگ برطانوی نشریاتی ادارے کی خبروں والے وقت اپنے ریڈیو سیٹ کے گرد خبریں سننے کو اس طرح گلی محلوں میں جمع ہو جاتے جیسے جلسہ ہو رہا ہو یا کوئی پرجوش کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوں۔ اس نے کہا تھا "شکاری کتے میرے خون کے پیاسے ہیں"۔ اداکار محمد علی اور علامہ نصیرالاجتہادی بھی ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت میں عوامی رابطوں کے جلسے کرنے نکل پڑے تھے۔ نو ستاروں کی تحریک کے بارے میں خبریں دینے کے حوالے سے اپنے ایک خطاب میں برطانوی نشریاتی ادارے کو علامہ نصیرالاجتہادی نے "دسواں ستارہ"قرار دیا تھا۔میرے کئی یار دوست تھے جو بھٹو حکومت کے سیاسی قیدی تھے۔،ملک کی جیلیں بھٹو کے سیاسی قیدیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ پی این اے تحریک سے بھی بہت پہلے۔ اوپر سے پی این اے کے قیدی بوڑھےبچے جوان بھر بھر کر جیلوں میں بند کئے جا رہے تھے۔ یہ بالکل لاٹھی گولی کی سرکار تھی۔ ڈیفنس آف پاکستان رولز (ڈی پی آر) اور فیڈرل سیکورٹی فورس (ایف ایس ایف) تلے چلائی جانے لگی تھی۔
ایہہ قوم بکے گی دو آنے
ایہہ ملاں وھ سکی دو آنے
ایہہ سوہنا منڈا دو آنے
جیسے نعرے مزنگ لاہور کے منچلوں نے تیار کئے تھے۔ ان میں میرا ایک دوست بھی شامل تھا جو ہیروئن کے اوائلی عادی موالیوں میں شامل تھا اور مزنگ چوک کے جلوسوں میں آگے آگے ہوتا۔ میری اس سے بحث ہوتی کیونکہ وہ سخت دائیں بازو کا اور ملک میں مذہبی نظام حکومت لانا چاہتا تھا۔ میں ٹھہرا سیکولر۔
پی این اے کے لوگوں پر تشدد کا تو چرچا بہت ہوتا لیکن جو پاکستان پیپلزپارٹی کے حامی تھے یا ووٹر تھے ان پر تشدد اور ان کی جانوں اور املاک کے ضیاع کا کچھ کم ہی ذکر ہوتا تھا۔ کراچی حیدرآباد اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں جیسے اللہ والا کالونی میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو خاندان سمیت زندہ جلایا گیا تھا۔ حیدرآباد جیسے شہروں میں تو پی پی پی کے ووٹر دہرے تہرے عذاب میں تھے اور اب تک ہیں۔ بھٹو کی حکومت تب بھی وہ عذاب میں۔ بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک تب بھی وہ عذاب میں۔ بھٹو حکومت کا دھڑن تختہ تب بھی وہ عذاب میں اور بھٹو تختہ دار پر تب بھی پی پی پی کے ووٹر وہ لیاری اور کراچی کے مضافات ہو کہ حیدرآباد عذاب میں۔ یہاں ان کے خلاف جنگ لسانی بھی بنتی ہے تو سیاسی بھی۔
کیا آپ نے حیدرآباد شہر کے ایک غنڈے رئیس عرف ببیرے بدمعاش کا نام سنا ہے۔ ببیرا بھی پی این اے تحریک کا "جیالا" تھا اور جولائی ستتر میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اب اسطرح کے سارے بدمعاش ایم کیو ایم میں چلے گئے تھے۔ ببیرے کے نام پر اس کے محلے میں اسکے بھائیوں نے اسکی یاد میں سبیل قائم کی تھی۔ حیدرآباد کے ہی گاڑی کھاتے میں لوگ تمہیں بتائیں گے کہ انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کو آگ کس نے لگائی تھی۔ شاید دن رات سندھ سندھ کرنے والے قوم پرست دیہی جیالوں کو سندھیالاجی کو آگ لگانے والے کا پتہ بھی نہ ہو۔ جب جب بھی شہر میں فسادات ہوتے تو تلک چاڑہی پر کیفے جبیس پر پتھرائو کیوں ہوتا! پی پی پی کے بھی اپنے بدمعاش تھے۔ پانچ جولائی انیس سو ستتر والی اس شام میں نے بھی باقی لوگوں کے ساتھ اس محسن کش جنرل کو ٹی وی پر دیکھا جو "عزیز ہم و طنو اسلام علیکم " کہتے ہوئے اپنی لکھی تقریر کے پنے اپنی بیچ والی انگلی سے اپنی بڑی مونچھوں تلے چھپے ہونٹوں پر سے تھوک لگا کر پلٹ رہا تھا۔ ایک مبصر نے تب جنرل ضیاالحق کو کارٹون فلم کے اس ولن سے تعبیر کیا تھا جو مظلوم لڑکی ہیروئن کو ٹرین کی پٹریوں پر رسیوں سے باندھ دیتا ہے اور اوپر سے ٹرین آ رہی ہوتی ہے۔ مجھے تب ایسا لگتا کہ یہ لڑکی پٹریوں پر بندھی ہوئی ہےبس ضیا ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ یہ لڑکی عوام کی امنگ تھی۔ جمہوریت تھی۔ وطن تھا یا بینظیر بھٹو تھی۔ کہ جولائی آتا ہے جاتا ہے لیکن ہر دور میں ضیا اور اس کے جیسے ٹولے کی آمد کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔

تازہ ترین