• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کی اپنے روایتی حریف بھارت پر ایک بہت بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنا واقعی اپ سیٹ تھا۔انڈین پریمیئر لیگ کے توسط سے بھارتی کرکٹ میں پچھلے کئی سالوں سے بے پناہ پیسہ آگیا جس سے بھارتی کرکٹ پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوئے اور وہ مضبوط ٹیم کے طور پر سامنے آئی ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے مگر اسکی آڑ میں جس طرح سے بھارتی میڈیا ایک مغرور اور پاکستان دشمنی سے لبریز بیانیے کی ادائیگی میں دن رات مصروف رہا اس سے کھیل کے مواقع آپسی میل جول بڑھانے کے برعکس نفرت انگیز کاروبار میں بدل گئے ۔ فائنل مقابلے سے پہلےبھارتی ٹی وی چینلز نے پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف نفرت آمیز رپورٹیں جاری کیں حلانکہ اسمیں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے کھلاڑی اپنے حریفوں کے مقا بلے میںآزمودہ کار اور بہتر تھے۔ اس وجہ سے فائنل کی جیت کا جشن حق بجانب تھا نہ صرف اس لئے کہ لوگوں کے والہانہ جذبات کا اظہار بے حد دلکش تھا بلکہ اس لئے بھی کہ یہ بھارت کی جانب سے مسلسل کشید کی جانے والی نفرتوں کیلئے ایک تریاق بھی تھا۔
اسی جذبے کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی بڑے پیمانے پر خوشیاں منائی گئیں۔ لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر آکر والہانہ جشن منایا۔ وادئ کشمیر کا طول وعرض مسلسل غم اور اندوہ میں ڈوبے رہنے کے باوجود بے پناہ مسرتوں سے گونج اٹھا اور کروڑوں مالیت کی آتشبازی رات بھر آسمان پر رنگوں کی کشیدہ کاری کرتی رہی۔ نوجوانوں نے جگہ جگہ موٹر سائیکل ریلیاں نکالیں جبکہ پیدل چلنے والے ان کے ہارن کی آواز پر ناچتے رہے۔ خواتین نے لوک گیتوں کی تھاپ پر خوشیوں کے نئے نغموں کو تراشا جسمیں پاکستانی کھلاڑیوں کی تعریفوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے دیرینہ مطالبۂ آزادی کا بھی ذکر تھا۔ پاکستان کی جیت سے کشمیریوں کو خوشیاں منانے کا ایک نادر اور ضروری موقعہ مل گیا کیونکہ گزشتہ جولائی سے کشمیری ہندوستانی ظلم اور جبر کے سائے میں لگاتار ماتم منانے میں مصروف ہیں۔ جیت کا یہ جشن بھارتی فوج کی جانب سے دی جانے والی مسلسل دھمکیوں کے باوجود منایا گیا حالانکہ ابھی پاکستان کی جیت کی خوشیاں منانے کے بعدبھارتی فوج نے کئی علاقوں میں گھروں پر حملے کرکے املاک کو نقصان پہنچایا اور لوگوں بشمول عورتوں اور بچوں کو زدوکوب کرکے زخمی کردیا۔
مقبوضہ کشمیر میں کرکٹ نہ صرف ایک ذریعۂ تفریح ہے بلکہ اس کے توسط سے کشمیری اپنے سیاسی افکار وخیالات اور پسند ناپسند کا اظہار بھی کرتے آئے ہیں۔ کرکٹ کے ذریعے جہاں انہوں نے ہمیشہ بھارت کی غلامی سے آزاد ہونے کی خواہشات کا اظہار کیا ہے وہیں اسے پاکستان سے اپنی وارفتگی اور ستائش کا وسیلۂ بھی بنایا ہے۔ کشمیری ہند پاک کرکٹ میچ کے دوران اپنے تمام معمولات چھوڑ کر یا تو ٹیلی ویژن اسکرینوں سے چمٹ جاتے ہیں یا مصلّے پر بیٹھ کر پاکستان کی جیت کیلئے نوافل اور دعاؤں کا اہتمام کرتےہیں اور حالیہ میچ کے دوران بھی یہی مناظر دیکھنے کو ملے۔ کرکٹ کے کھیل نے ہمیشہ کشمیریوں کے جذبۂ حریّت کو مہمیز بخشی ہے اور پاکستان کی تازہ جیت نے جاری تحریک آزادی کی تجدید نو کی ہے۔
1980ء کی دہائی میں سرینگر میں دو بار ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں کا انعقاد کیا گیا۔ قدرت کی کاریگری کہ دونوں مقابلوں میں بھارت بری طرح ہار گیا اور کشمیریوں کو اپنے دلوں میں بھارت کے لئے دبی نفرت کو کھنگالنے اور کھلم کھلا اسکا اظہار کرنے کے نادر مواقع دستیاب ہوئے۔
پہلا میچ اکتوبر 1983ء میں بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان میچ کھیلا گیا جو بھارت کیلئے ایک پبلک ریلیشنز کے حوالے سے ایک سانحے سے کم نہ تھا۔ اسٹیڈیم اگرچہ کھچاکھچ بھراہوا تھا مگر لوگوں نے سبز ہلالی پرچم اور پاکستانی کھلاڑیوں کی تصاویر اٹھارکھی تھیں۔ اسٹیڈیم سے متصل ایک دیو قامت چنار کے تنے پر عمران خان کی ایک قدآدم تصویر چسپاں کی گئی تھی جو پورے مقابلے کے دوران تماشائیوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی ۔
کھیل کے آخری لمحات میں کشمیری نوجوانوں کا ایک گروپ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا اسٹیڈیم میں گھس آیا اور میدان کو کھود ڈالا جس کے بعد میچ کو روکا گیا۔ بعد میں تکنیکی بنیادوں پر ویسٹ انڈیز کی ٹیم فاتح قرار پائی ۔ کشمیریوں نے بھارت کی شکست پر عید کی خوشیاں منائیں اور انکے جذبۂ حریت کو سکون ملا ۔ وہ نوجوان جنہوں نے میدان کھود کر احتجاج کیا تھا کو گرفتار کرکے اذیت خانوں میں ڈال دیا گیا۔ ان میں سے کئی جوان آگے چل کر تحریک آزادی کیلئے ہونے والی مسلح جدوجہد کے روح رواں بن گئے۔
بھارت کے مشہور کرکٹر سنیل گواسکر جو اس میچ میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے شریک تھے نے اس کو اپنی زندگی کے بدترین تجربے سے تعبیر کیا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’رنز اینڈ رویئنز‘‘ میں صورتحال کا نقشہ یوں بیان کیا گیا’’جوں ہی بھارتی کھلاڑی میدان میں اترے تو ان پر آوازے کسے گئے، یہ ایک حیرتناک امر تھا کہ بھارت میں ہوتے ہوئے ہم پر آوازے کسے گئے اور وہ بھی اسوقت جب ابھی ایک بال بھی پھینکا نہیں گیا تھا۔ ہار جانے کے بعد آوازے کسنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر یہ تو ناقابل یقین تھا۔ مزید برآں ہجوم میں کئی لوگ پاکستان کے حق میں نعرے لگارہے تھے جس سے ہم ہکا بکا ہوکر رہ گئے کیونکہ ہم ویسٹ انڈیز کے ساتھ کھیل رہے تھے نہ کہ پاکستان کے ساتھ۔ ویسٹ انڈینز بھی ہماری طرح حیران تھے لیکن ظاہر بات ہے وہ بہت خوش ہوئے کہ پروڈینشل کپ میں شکست کے بعد ایک اہم میچ میں انکو اتنی سپورٹ مل رہی تھی۔‘‘ میچ کے اختتام پر ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیو لائیڈ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اتنی بھر پورسپورٹ انکو اپنے ملک میں بھی کم ہی نصیب ہوئی ہے۔ بھارتی ٹیم کے کپتان کپل دیو نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں بھی انہیں اتنے معاندانہ ہجوم کا سامنا نہیں ہوا۔
دوسرا میچ ستمبر 1986ء میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلا گیا۔ اس دفعہ بھارتی حکومت چوکس تھی اور کسی بھی ممکنہ گڑبڑ سے نمٹنے کیلئے سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے۔ اسٹیڈیم کے ارد گرد ہزاروں نیم فوجی دستوں کو تعینات کرنے کے علاوہ تماشائیوں کے روپ میں بھی سینکڑوں اہلکارموجود تھے۔ ان تمام اقدامات کے باوجود کشمیریوں نے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ انہوں نے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی پروا کئے بغیر مہمان آسٹریلوی ٹیم کی کھل کر پذیرائی کی۔ بھارت میچ ہار گیا اور کشمیریوں نے سڑکوں پر آکر رقص کیا اور آتش بازیاں چھوڑیں۔ اس درجہ اہانت اور خفت اٹھانے کے بعد کشمیر میں بین الاقوامی میچوں کا سلسلہ بند کردیا گیا۔ اسکے فوراََ بعد آزادی کیلئے مسلح جدوجہد شروع ہوگئی جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک طاقتور رہی اور اسکو عوام کی بیحد پذیرائی حاصل رہی۔ اسکے بعد رفتہ رفتہ یہ تحریک مانند پڑتی گئی۔ اسکے زوال کا سبب جہاں بھارت کا بے پناہ ظلم اور جبر تھا وہیں خود آزادی پسند مسلح جنگجوؤں کی آپس کی قتل وغارتگری کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔
گزشتہ سال کے وسط میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کو نئے سرے سے بے پناہ عوامی تائید حاصل ہوگئی جس نے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کے سیاسی اور سماجی حالات کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شرمناک شکست پر کشمیر میں بے مثال جشن منایا گیا جس میں پاکستان کیلئے بےپناہ محبت کا پرجوش اظہار تھا۔ بھارتی ظلم اور جبر سے کچلے جانے کے باوجود کشمیری ایک بار پھر دیوانہ وار اور دلیری سے ہندوستان سے سرکشی کا اعلان کررہے ہیں۔ تاریخ اپنے آپکو دہرا رہی ہے ۔

تازہ ترین