• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھا لگا کہ دفتر خارجہ کی قسمت جاگی اور وہاں وزیراعظم کی زیرِ صدارت ایک بہت ہی اہم اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اور بھی مناسب دکھائی دیا کہ بدلتی عالمی صف بندیوں اور اُن سے اُبھرتے نئے چیلنجوں کا مدبرانہ سامنا کرنے کے لئے پاکستان کی سول قیادت دانشمندانہ احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ اس کے باوجود کہ وزیراعظم پر پانامہ کی آفت کے سائے گہرے ہوتے دکھائی پڑتے ہیں، اُنہوں نے خارجہ پالیسی کے جو چار ستون بیان کیے وہ لائقِ تحسین اور قابلِ عمل ہیں۔ یقینا! (1) پُرامن ہمسائیگی مع علاقائی تعاون،(2) تجارت، (3) سرمایہ کاری اور (4) سائنسی اشتراک پاکستان کی معاشی و سماجی اور جغرافیائی ضرورتوں اور سلامتی کے حقیقی تقاضوں کے لئے کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کے مابین چوٹی ملاقات میں امریکہ نے جس طرح پاک بھارت آرپار دہشت گردی، افغانستان اور چین پاکستان معاشی شاہراہ (CPEC) کے تذویراتی معاملات پر بھارتی موقف کی تائید کی اور سعودی اور قطری تنازع نے جو بڑا مخمصہ کھڑا کیا، لگتا ہے کہ دفتر خارجہ نے اُس پر توازن برقرار رکھا ہے۔ پاک افغان بگڑے تعلقات کو وزیراعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے آستانہ ملاقات میں بہتر بنانے کی جو کوشش کی تھی، اُسے اب چین کی ثالثی سے تقویت ملی ہے۔ گو کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ٹرمپ انتظامیہ کے جولائی کے آخر تک از سرِ نو جائزہ کے بعد ہی طے پائے گی۔ وزیراعظم نے پاک امریکہ تعلقات کو نئی نہج پر استوار کرنے کی راہ سجھائی ہے۔ وہ چوہدری نثار کی آ بیل مجھے مار والی درفنطنی سے باز رہے۔ سعودی قطری تنازع سے باہر رہنے کا فیصلہ بھی یمنی جنگ سے علیحدہ رہنے کے پارلیمانی اجماع کی روح کے مطابق ہے۔ وہ متنازع معاملات جن پر ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں، ابھی شاید فیصلہ کُن طور پر ایجنڈے پر نہیں آئے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزرے، ہم وہ کچھ خود کر گزریں جو ہمارے لئے بھی اتنے ہی اہم ہیں جو دوسروں کے لئے اور جس کا کہ تقاضا کیا جانے والا ہے۔
گزشتہ دنوں مودی ٹرمپ ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا وہ نہ صرف چین بلکہ پاکستان کے لئے بھی باعثِ تشویش ہے۔ گو کہ امریکہ کا رُخ چین کے خلاف زیادہ اور بھارت سے 30ارب ڈالرز کے تجارتی خسارے کے ازالے پر رہا، بھارت نے اپنی توپوں کا رُخ پاکستان کے خلاف اور بحرہند میں چین مخالف صف بندی میں امریکی چھتری حاصل کرنے پر رکھا۔ مشترکہ بیان میں پہلی بار امریکہ نے بھارت کے ساتھ مل کر مطالبہ کیا ہے کہ ’’پاکستان یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دوسرے ملکوں پر دہشت گرد حملوں کے لئے استعمال نہیں ہوگی۔ دونوں رہنماؤں نے پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ممبئی میں 26/11، پٹھان کوٹ اور دوسرے دہشت گرد حملوں میں ملوث پاکستان میں مقیم گروپوں کے خلاف انصاف کے عمل کو تیز کیا جائے۔‘‘ اس بیان اور ملاقات سے پہلے ہی امریکہ کے دفتر خارجہ نے حزب المجاہدین کے سربراہ سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ بھارت نے امریکہ کو اپنے موقف پہ قائل کر لیا ہے۔ اور ہماری یہ دلیل کہ کشمیریوں کی حربی حریت ایک متنازع مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لئے ہے، امریکہ نے ردّ کر دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیریوں کی اپنی پُرامن انتفادہ کو اب ’’مہمان جہادیوں‘‘ کی نہ صرف ضرورت نہیں بلکہ اُن سے کسی طرح کا تعلق بھی اس کے لئے انتہائی مہلک ہے۔ اور بھارت دہشت گردی کو بہانہ بنا کر کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو بدنام کر رہا ہے اور اپنے جرائم کو چھپا رہا ہے۔ اب ہم پرانی ڈفلی بجاتے رہیں گے تو کوئی کشمیریوں کی آہ و بکا پہ کیوں کان دھرے گا۔ اگر دفتر خارجہ نے کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت حاصل کرنے میں آگے بڑھنا ہے تو کشمیر جہاد کے ترکے کو خیرباد کہنا ہوگا۔ جب ہمارا سرکاری موقف ہی یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو ہر نوع کے دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور دہشت گردوں کے خاتمے میں ’’اچھے‘‘ ’’بُرے‘‘ کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جائے گا تو پھر ہم کیوں فسادیوں کے جوتے کھا رہے ہیں اور دُنیا کے سو پیاز بھی۔
امریکہ اور نیٹو کے سامنے جو بڑا مسئلہ ہے وہ ہے افغانستان کا نہ ختم ہونے والا عدم استحکام اور دہشت گردی کا پیچیدہ ہوتا ہوا چیلنج۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں پھر سے اپنی فوجیں بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور جولائی کے آخر تک امریکہ کا محکمہ دفاع افغانستان 228پاکستان بارے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کرے گا۔ باوثوق ذرائع یہی عندیہ دے رہے ہیں کہ بلی چوہے کا کھیل اب نہیں چلنے والا اور امریکی بڑی سخت حکمتِ عملی کے ساتھ دباؤ بڑھانے والے ہیں۔ جس میں طور خم کے اس پار طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ڈرون حملوں کی بوچھاڑ، معاشی و فوجی ناکہ بندی کی دھمکیاں اور بہت کچھ۔ بھارت امریکہ مشترکہ بیان میں افغانستان میں بھارتی کردار کو بڑھاوا دینے کی بات بھی ایک طرح سے پاکستان ہی کو دھمکی ہے۔ کیا جو ہم چار دہائیوں سے افغانستان کو اپنی تذویراتی گہرائی بنانے پہ تُلے تھے جو کہ اب تذویراتی کھائی بنتی چلی گئی ہے۔ اس کھائی میں گرنے سے سوویت یونین بچا نہ امریکہ کو جان خلاصی مل رہی ہے۔ امریکہ کی نئی حکمتِ عملی کے مضمرات کو صحیح سمجھتے ہوئے چینی وزیرِ خارجہ نے کابل اور اسلام آباد کے ہنگامی دورے کے دوران امکانی سدِباب کا سامان پیدا کرتے ہوئے سہ طرفہ اور امریکہ سمیت چہار طرفہ اداراتی کوششوں کو متحرک کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ افغانستان کے فسادی جنگل میں ہمیں پھنسے رہنے سے کچھ نہیں ملنے والا۔ اب سوال یہ ہے کہ افغان طالبان کا کیا کیا جائے۔ یہ بڑا مخمصہ ہے جو ہمارے گلے پڑنے جا رہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان سے ’’را‘‘ (RAW) اور افغان خفیہ ادارے تحریکِ طالبان پاکستان یا داعشیوں کو ہمارے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کر پائیں تو ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ افغان طالبان یا تو سیاسی حل پہ رضامند ہوتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کر دیں یا پھر یہاں سے رفو چکر ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر بارود کا جواب بارود سے ہی آئے گا اور پاک افغان امن تہ و بالا ہوتا رہے گا۔
بھارت اب اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ وہ امریکہ سے مل کر مشرق و مغرب دونوں جانب سے اپنی پراکسی جنگ تیز کر دے۔ اس کا سدِباب بھی کسی دو طرفہ معاہدے ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ ہم پہلے ہی رد الفساد کے ذریعے ہر طرح کے عناصر کی سرکوبی میں سرگرم ہیں تو پھر امریکہ، روس اور چین کے سفارتی ذریعوں سے پراکسی جنگوں کے مکمل خاتمے کی تجویز دے کر سفارتی طور پر کیوں سرخ رو نہیں ہو سکتے۔ سب سے تشویشناک پہلو چین پاکستان معاشی راہداری بارے امریکہ اور بھارت کا منفی ردّعمل ہے۔
امریکہ نے بھارت کے اس اعتراض کہ چونکہ یہ راہداری پاکستان کے زیر انتظام ناردرن ایریاز (شمالی علاقاجات) سے گزر رہی ہے جو بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سلامتی کے منافی ہے، سے اتفاق کر لیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کشمیر پر اپنے روایتی موقف سے ہٹ گیا ہے۔ بعد ازاں امریکی دفتر خارجہ نے اس کی وضاحت تو کی ہے لیکن اقتصادی راہداری کے بارے میں امریکہ بھارت منفی ردّ عمل ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ یہ غالباً بھارت کی بڑی جیو اسٹرٹیجک حماقت ہے کہ وہ پاکستان سے گزرے بغیر افغانستان، ایران اور وسطِ ایشیا تک پہنچ سکتا ہے۔ شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن میں شمولیت کے بعد ون بیلٹ ون روڈ پہ چڑھے بنا بھارت کے لئے کوئی چارہ نہیں۔پاکستان کا سعودی اتحاد میں جانا اور فوجی اتحاد کی جنرل راحیل شریف کی سربراہی پاکستان کے گلے پڑ گئی ہے۔ نہ صرف ہم ایران مخالف کیمپ میں شامل ہو گئے ہیں بلکہ اب پاکستان کو شیعہ سنی فساد کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ دفتر خارجہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے سعودی قطری مناقشے سے باہر رہنے کا جو اعلان کیا ہے، اُس کی روشنی میں ہمیں ایران کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کے تعلقات بحال کرنے کے لئے اہم اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔ پارا چنار میں ہونے والی مسلسل دہشت گردی کے خلاف وہاں کے شہریوں کا جو ردّعمل آیا اس پر نہ صرف غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آپریشن رد الفساد کو تیز کرنا ہوگا۔ ہفتہ بھر سوگواران پارا چنار کے چوک میں دھرنا مارے بیٹھے رہے۔ آخر آرمی چیف جنرل باجوہ نے وہاں جا کر جو فیصلے کیے وہ بہت ضروری تھے۔ اُن پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے۔ فاٹا سے متعلق اصلاحات کو فوری طور پر پارلیمنٹ میں زیرِ غور لانا چاہیے اور فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کو ملتوی نہیں کرنا چاہیے۔ شیعہ سنی اتحاد اور مسلکی بقائے باہم کو برقرار رکھے بغیر پاکستانی معاشرتی ایکتا برقرار رہ سکتی ہے نہ اداراتی و قومی اتحاد۔حالات نئی کروٹ لے رہے ہیں اور خطے میں نئی صف بندیاں اور نئے چیلنج اُبھر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں نئے راہ عمل پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرناچاہیے۔ فوجی قیادت اور دفترِ خارجہ اپنا اپنا تجزیہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کریں تاکہ ایک متفقہ قومی سلامتی اور خارجہ کی پالیسیاں واضح ہو کر سامنے آئیں۔ پھر یہ کابینہ کی سلامتی کی کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرے۔ یہ سب کچھ ابھی کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ ایک دوسرے کو دوش سے کیا حاصل۔ لیکن پانامہ کیس میں اداروں اور سیاستدانوں میں جاری خانہ جنگی سے فرصت ملے تو کوئی اس جانب توجہ دے۔

تازہ ترین