• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے حکمران اور سیاست دان قوم کو بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ کچھ ملک دشمن قوتیں پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعہ وہ حالات خراب کرنا چاہتی ہیں ۔ جب بھی دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہوتا ہے تو اس طرح کی سازش کا انکشاف کیا جاتا ہے ۔ پارا چنار میں عید سے قبل دہشت گردی کے انتہائی بہیمانہ واقعہ کے بعد بھی فرقہ وارانہ خونریزی کرانے کی سازش کے بارے میں ایک بار پھر خبردار کیا جا رہا ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی مہم کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ مہم چلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی ملک میں فرقہ وارانہ فسادات اور پاکستانی معاشرے کو اس بنیاد پر تقسیم کرنے کے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ ہمارے اداروں کو پارا چنار کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد اور ثبوت بھی مل گئے ہیں ۔
کیا ملک دشمن قوتیں اس طرح کی سازش کرتی ہیں یا ہمارے حکمران اور سیاست دان لوگوں کی توجہ ہٹانے اور اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں ایسی سازشیں ہوتی ہیں ۔ اس وقت ملکوں او ر قوموں کے درمیان روایتی اور براہ راست جنگیں نہیں ہوتیں اور اگر ہوتی بھی ہیں تو وہ ماضی کی طرح نہیں ہوتی ہیں ۔ پوری دنیا نے جنگوں کا طریقہ کار تبدیل کردیا ہے ۔ ملکوں کادفاعی بجٹ اب ظاہری افواج سے زیادہ خفیہ افواج یا اداروں کے لئے مختص ہوتا ہے ۔ ظاہری اور براہ راست جنگوں سے زیادہ خفیہ آپریشنز پر زیادہ اخراجات کیے جاتے ہیں ۔ اب دشمن ممالک کی سرحدوں پر نہیں بلکہ سرحدوں کے اندر ایک ایسی جنگ لڑی جاتی ہے ، جسے جدید اصطلاح میں ’’ فورتھ جنریشن وار فیئر ‘‘ یعنی چوتھی نسل کی جنگ ( 4 جی ڈبلیو ) کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ ایسی جنگ ہے ، جو دشمن یا مخالف ممالک میں معاشرتی انتشار ، خانہ جنگی ، دہشت گردی ، نسلی ، لسانی ، مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد اور تقسیم کے ذریعہ لڑی جاتی ہے ۔ اس جنگ میں فریق ریاست یا حکومت نہیں ہوتی بلکہ اس جنگ کا مقصد ریاست یا حکومت کی عمل داری ختم کرنا یا اسے کمزور کرنا ہوتا ہے ۔ 4 جی ڈبلیو کے لئے ہدف والے ملک میں مختلف گروہوں کے درمیان اختلاف اور تصادم کی صورت حال پیدا کرنے کیلئے کئی حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور کئی سالوں پر محیط منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں میڈیا بشمول سوشل میڈیا کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے ۔ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے اور منافرت پھیلانے کے لئے اداروں اور افراد کو بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ فرقہ وارانہ ، نسلی اور لسانی منافرت پھیلانے کے لئے باقاعدہ طور پر اور منصوبہ بندی کے تحت پاکستان دشمن قوتیں کام کر رہی ہیں ۔ 4 جی ڈبلیو کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس 4 جی ڈبلیو سے نمٹنے کے لئے ہماری منصوبہ بندی کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے حکمران یہ بات کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے فلاں واقعہ میں ملک دشمن قوتیں ملوث ہیں تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس واقعہ سے لوگوں کی توجہ ہٹا رہے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہے ہیں ۔
بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس لئے خدشہ یہ ہے کہ پاکستان کو پہلے سے زیادہ عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ کا میدان بنا کر رکھا جائے گا اور یہ جنگ اپنی شدت میں پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گی ۔ 1979 ء سے پاکستان میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اب جنگ کی نوعیت تبدیل ہونے والی ہے ۔
انتہائی افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین فرقہ وارانہ تضادات کے لئے زیادہ سازگار ہے ۔ کچھ ایسے حقائق ہیں ، جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ہے ۔ پاکستان کی ریاستی ہیئت مقتدرہ اپنے جوہر میں ایک ’’ نسلی فرقہ ورانہ ‘‘ ( Ethnic-Sectarian ) اپچ کی حامل ہے ۔ اس ہیئت مقتدرہ نے پاکستانی سماج کو اس بنیادوں پر نہ صرف تقسیم رکھا بلکہ اس تقسیم کا دفاعی نقطہ نظر سے جواز بھی پیش کیا ۔ کچھ نسلی ، لسانی اور مسلکی گروہوں کو زیادہ محب وطن قرار دیا گیا اور باقی گروہوں کو محب وطن بنانے کی کوششیں جاری ہیں ۔
اس تقسیم کو گہرا کرنے میں میڈیا نے بھی کردار ادا کیا ۔ اس ریاستی ہیئت مقتدرہ کی ذہنیت اور اپچ ( اپروچ ) کو جب تک مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا جائے گا یا ختم نہیں کیا جائے گا ، تب تک ہمارے دشمن ہمارے خلاف 4جی ڈبلیو میں اپنے اہداف حاصل کرتے رہیں گے ۔ فرقہ وارانہ ، نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم اس قدر گہری ہے کہ ہمارے بڑے لوگوں میں بھی غیر جانبداری سے بات کرنے کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ۔ عام لوگ تو اس تقسیم سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔ ہماری مساجد اور دینی اجتماعات میں خطبوں کے دوران جو بیانیہ اختیار کیا جاتا ہے ، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہم خود اپنے لئے کس قدر خطرناک ہو گئے ہیں ۔ اس طرح کا بیانیہ پوری دنیا میں کہیں رائج نہیں ہے ۔
دوسری تشویش ناک بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی نیو ورلڈ آرڈر نے عالم اسلام کو خون میں نہلا دیا ۔ اب یہ امریکی ورلڈ آرڈر غیر موثر ہو رہا ہے اور دنیا میں طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ واحد امریکی سپر پاور کو چیلنج کرنے کے لئے نئے بلاکس بنیں یا طاقت کے لئے نئے مراکز ابھریں ، امریکہ نے اپنی حکمت عملی سے عالم اسلام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے ۔ یہ تقسیم بھی پاکستان کے اندر پہلے سے موجود فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کو مزید گہرا کر رہی ہے ۔ ہمارے دشمنوں کو پاکستان کے خلاف 4جی ڈبلیو کے لئے سازگار حالات میسر آ رہے ہیں ۔
ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ’’ 4جی ڈبلیو‘‘ کے دور والے طریقے اختیار کرنا ہوں گے ۔ سب سے پہلے ریاستی ہیئت مقتدرہ کی اس ذہنیت کو ختم کرنا ہو گیا ، جس کے تحت یہ تقسیم پاکستان کی سلامتی کے لئے ضروری تھی ۔ اس کے بعد میڈیا بشمول سوشل میڈیا کے ذریعہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے انتہائی دانش مندی اور منصوبہ بندی کے تحت مہم چلانا ہو گی ۔ اس مقصد کے لئے دیگر ذرائع بھی استعمال کرنا ہوں گے ۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف ’’ نرمی ‘‘ ختم کرنا ہو گی ۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ بدلتی ہوئی اس دنیا میں پاکستان کے لئے امکانات بھی بہت ہیں اور خطرات بھی بہت ہیں اور سب سے زیادہ خطرہ فرقہ وارانہ منافرت ، کشیدگی اور تشدد ہے ۔ اس سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔
kk

تازہ ترین