• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ کہا جاتا ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ ایسا کہنے والے مگر یوں کوتاہ نظر ہیں کہ انہیں یہ نظر ہی نہیں آسکا ہے کہ ہم کئی سال قبل بلکہ برسوں سے چاند پر نہ صرف یہ کہ پہنچ چکے ہیں بلکہ یہ بھی دریافت کر لیا ہے کہ چاند ایک نہیں دو ہیں! اور یہ کارنامہ کسی اورنے نہیں، ان صاحبان کا ہے جن کے متعلق یہ بدگمانی عام ہے کہ وہ ایک گولی یا ایک بلب سے لے کر وہ تمام اشیاء جن سے انسان کی صحت و راحت وابستہ ہے، نہیں بنا سکے۔ اب تک کہا جاتا تھا کہ چونکہ مولوی صاحبان جدید سائنسی تعلیم کو کفر سمجھتے ہیں لہٰذا قرآن عظیم میں جو انسان کیلئے سورج و چاند دریا و پہاڑ یعنی بحر و بر میں موجود ہر شے کی تسخیر کا ذکر ہے، وہ انسان کس طرح مسخر کر پائے گا!
لیکن ان صاحبان نے ایک کی بجائے دو چاند دریافت بلکہ ایجاد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ تسخیر کائنات کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی کی قطعی ضرورت نہیں، جب ایک فتویٰ سے ایک صوبے میں ایک چاند اور دوسرے فتوی سے اگلے دن دوسرا چاند پیدا کیا جا سکتا ہے پھر دیگر اشیاء کی تسخیر کیونکر مشکل ہو سکتی ہے ! استدلال و زنی ہے بلکہ پہاڑ جیسا ہے۔وطن عزیز میں سادہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ رمضان اور شوال یعنی عید کے چاند کے علاوہ دیگر دس مہینوں کے چاند پر تنازع کیوں اٹھ کھڑا نہیں ہوتا ؟ سوال دس ملین ڈالر کا ہے، لیکن ہم نے اسے سادہ لوگوں کا سوال اس لئے کہا کہ اس کے مخاطب حضرت علامہ پوپلزئی صاحب ہیں، جو بہر صورت سادہ نہیں بلکہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ پچھلے رمضان المبارک میں اچانک عمرے پر چلے گئے اور حالیہ دنوں میں ان کی دبئی یاترا کے قصے عام ہوئے۔ خیر ہمیں ان خبروں کی صداقت پر قطعی اعتبار نہیں، پھر یہ لایعنی بحث ہے۔ اصل واقعہ یہ ہوا کہ یار لوگوں نے اب چاند کو بھی پختونوں اور باقی ملک کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کراچی میں کہا جاتا ہے کہ پٹھانوں کا چاند ایک دن پہلے نکلتا ہے جبکہ خود پختون بھی پختونخوا والے چاند کو اپنا چاند سمجھتے ہیں، کاش وہ ہماری نصیحت دامن گیر کر لیں۔
تو اسے اپنی تمنائوں کا مرکز نہ بنا(اےپٹھان)
چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اُتر جاتا ہے
جس روز پختونخوا میں عید تھی کراچی میں ایک دوست نے فون کیا اور جذباتی انداز میں گویا ہوئے ، دیکھئے یہ لوگ ہمارے (پختونخوا) کے چاند کو تسلیم نہیں کرتے... ہم نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی کراچی میں آج عید ہے، کہنے لگے نہیں روزہ ہے، میں نے کہا پھر تو آپ بھی پختونخوا کے چاند کو تسلیم نہیں کرتے !! خاموش ہو گئے، ہم نے حوصلہ دیا، یارِ من چاند کسی کا نہیں، صرف مولوی محترم کا ہے … پختونخوا کے مولوی صاحب نے فتویٰ دیا چاند ہو گیا ہے تو پختونخوا کے لوگوں نے عید منا لی، دوسرے مولوی صاحب کے کہنے پر اگلے روز پورے ملک میں عید منائی گئی … اب اگر اسفند یارولی صاحب کہتے کہ چاند ہو گیا ہے اور پختون عید مناتے تو کہا جا سکتا کہ یہ پختونوں کا چاند ہے !!
لوگ پھر سوال کرتے ہیں کہ کون برحق ہے، سادہ جواب تو یہ ہے کہ کوئی لاکھ کہے لیکن چاند تو ایک ہی ہے۔ لہٰذا برحق بھی دونوں میں ایک ہی ہو سکتا ہے، با الفاظ دیگر یا تو وہ غلط کہہ رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ چاند نظر آگیا ہے اور یا پھر وہ جو کہتے ہیں کہ نظر نہیں آیا، بیک وقت دونوں سچے نہیں ہو سکتے۔ بعض حلقوں کا یہ اعتراض بھی قابل توجہ ہے کہ ریاست نے جو ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی تشکیل دی ہے، کیا اس کے مقابل خود ساختہ کمیٹی، ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ! پھر جو حضرات صبح دوپہر شام یہ باور کراتے ہیں کہ امیر کی اطاعت سے روگردانی فتنہ پروری کے ماسوا کچھ نہیں، وہ اجماع امت کے مطابق امیر قرار دیئے جانے والے مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے مقابل ہر سال دو مبارک مہینوں میں کیوں متوازی عدالت لگا دیتے ہیں، پھر باقی دس مہینوں میں یہ کیوں غائب ہو جاتے ہیں ؟
بلاشبہ مٹی کا پتلا انسان غلطی سے مبرا نہیں، پھر ہم مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے باوجود اسےمبنی برحق کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بنابریں بسا اوقات مسلک کی چمک بھی چشمانِ ناز کو خیرہ کر دیتی ہیں اور پھر یہی ہوتا ہے۔
اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا
آسمان پر چاند پورا تھا مگر آدھا لگا
خیر یہ تمام ہوائیاں ہیں، حقیقت مگر یہ ہے کہ آج جب پاک فوج نے یہ راز طشت ازبام کر دیا ہے کہ طالبان را کے ایجنٹ ہیں تو ہر کوئی ان کیخلاف فتوئوں کے انبار لگا رہا ہے لیکن کل جب طالبان کی دہشت عام تھی، ہمارے اکثر بڑے بڑے مذہبی رہنما انہیں بچے، اپنے اور بھٹکے ہوئے بھائی کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے، یہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب ہی تھے جنہوں نے کلمہ حق کہتے ہوئے ہر قسم کی دہشت گردی کیخلاف آواز بلند کی۔ جو لوگ چاند کو بھی نسلی قبا پہنانے میں برسوں سے منہمک ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1979 میں روس کیخلاف امریکی جہادکواسلامی جہاد باور کرایاتھا۔ آج تک دراز اس نام نہاد جہاد میں 40لاکھ پختون لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہزاروں خواتین بیوہ، لاکھوں یتیم اور لاکھوں معذور ہو کر در در بھیگ مانگنے پر مجبور ہیں۔ کاش پختون یہ سوچتے کہ جہاد تو وہ ہوتا ہے کہ جس میں تمام مسلمان شریک ہوں، یہ کیسا جہاد تھا جس میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے لوگ شریک ہی نہ تھے، کیا یہ لوگ مسلمان نہ تھے ؟ سو فیصد ہیں۔ تاہم وہ کسی کے دھوکے میں نہیں آئے۔ وہ جان گئے تھے کہ یہ جہاد نہیں ہے اور اسی خاطر اس سے لاتعلق رہے۔ وہی مذہبی صاحبان جنہوں نے نام نہاد امریکی جہاد کو پختونوں کا جہاد بنا ڈالا تھا، آج ملک و ملت سے کٹ کر چاند کو بھی نسلی بنانے پر تلے ہوئے ہیں...
ہاں اسے کمال ہی کہا جا سکتا کہ وہ جس رنگ ڈھنگ میں چاہیں پختونوں کی بڑی تعداد کو تبدیل کرادیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک وحشی جنگل سے پہلی مرتبہ آبادی کی طرف آیا تو اس نے ایک گائوں کی مسجد میں لوگوں کو باجماعت نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، مسجد کے دروازے پر وہ لوگوں کو قیام، رکوع اور سجدے کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھاکہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں، جب اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ، تو بالآخر خود کلامی کرنے لگا کہ لوگوں کے آگے کھڑا اکیلا شخص (امام) جب ہاتھ اٹھاتا ہے لوگ ہاتھ اٹھاتے ہیں، جب وہ جھک جاتا ہے یہ جھک جاتے ،جب وہ زمین پر جاتا ہے یہ زمین پر چلے جاتے ہیں ۔ یہ عمل جو کچھ بھی ہے مگر یہ سارا کمال آگے کھڑے شخص (مولوی) ہی کاہے ...اب ایسے ہی باکمال اصحاب کی خدمت میں عرض ہے کہ پوری دنیا میں چاند پر تنازع پیدا نہیں ہوتا، تو پھر ہمارے ہاں کیوں ایسا ہوتا ہے ؟ اور پھر ہم کیا اتنے گئے گزرے ہیں کہ چاند کی رویت کا مسئلہ تک حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ آخر ہم کب تک حضرت انشاجی کی زبان میں یہی گلہ کرتے رہیں گے۔
انشاجی یہ اور نگر ہے، اس بستی کی ریت یہی ہے
سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند

تازہ ترین