• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین 3 سال قبل میں نے لاطینی امریکہ کے ایک ملک یورو گوئے کے صدر جوزے موزیکا(Joze Mojica)جن کی عمر 80سال تھی ،کا ذکر کیا تھا۔وہ 2010سے 2015تک صدر رہے۔ان کے ملک کے قانون کے مطابق صدر صرف ایک مرتبہ 5سال تک صدارت کی کرسی پر رہ سکتا ہے۔ ان کی چند خصوصیات تھیں مثلاً وہ صدر بننے کے بعد بھی صدارتی محل میں نہیں رہے۔اپنے پرانے 5ایکڑ کے فارم پر ہی پورے5سال انتہائی سادگی کے ساتھ گزارے۔کوئی صدارتی مراعات نہیں لیں ۔ وہ ،ان کی بیگم جن سے انہوں نے 2005میں شادی کی تھی دونوں ہی ایگری کلچرل فارمرتھے۔اُس 3کمروں کے فارم پر وہ اور ان کی بیگم اور ایک معذور کتا جو 3ٹانگوں سے چلتا تھا اور اُن کی ایک پرُانی گاڑی (Bentley)جسے وہ خود ڈرائیو کرتے تھے یہ تھا اُن کا کل سرمایہ۔اس سے آگے سنئے اُن کی سالانہ صدارتی تنخواہ تقریباً14000ڈالر تھی۔اُس کو بھی 90فیصد وہ خیراتی اداروں کو دے دیتے تھے ۔ان کی بیگم ٹیچر بھی تھی،پڑھائی کے عوض ان کو تقریباً 12000ڈالر تنخواہ ملتی تھی وہ بھی 90فیصد چیریٹی کرتی تھی۔شام کو دونوں میاں بیوی اور ان کا کتا عام شہریوں کی طرح بازار میں چہل قدمی کرتے دیکھے جاتے تھے۔ان کو دیکھ کر اُن کے عوام خوش ہوکر تالیاں بجاکر خراج تحسین پیش کرتےتھے ۔ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی ان کو دنیا کا غریب ترین صدر سمجھا جاتا تھا ۔ نوجوانی میں سیاست میں آنے کے بعد ان کے ملک میں فوجی انقلاب بھی آیا اُس کی مخالفت میں وہ جیل بھی 2بار گئے ۔جمہوریت کی بحالی میں نمایاں کردار اداکیا۔2مرتبہ عوام نے ان کو سینیٹر بھی چُنا۔صدارت سے پہلے وہ ایگری کلچر اور لائیواسٹاک کے وزیر بھی رہے ۔ان کی حکومت نے ان کی اس سادگی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اُن کا نام نوبل پرائز کے لئے بھی تجویز کیا تھا۔جب وہ صدارتی مدت پوری کرچکے تو انہوں نے شہری فارم ہائوس فروخت کرکے شہر کے مضافات میں اُس سے بھی چھوٹا فارم ہائوس خرید کر رہائش منتقل کرلی۔اُن کی حفاظت کے لئے 2پولیس والے اُن کے ویران علاقے میں ڈیوٹی دیتے ہیں ۔اُن میں برطانوی نشریاتی ادارےکے ایک نمائندے نے انٹرویو میں پوچھا ۔آ پ دنیا کے بہترین سادگی پسند غریب ترین صدر سمجھے جاتے ہیں۔آپ اس پر تبصرہ کریں ۔ انہوں نے اُس نمائندے کو جو جواب دیاوہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے انہوں نے کہا کہ میں کیسے غریب ترین صدر ہوسکتا ہوں ۔میں امیر ترین صدر تھا میں اپنی 10فیصد تنخواہ تک پوری نہیں خرچ کرسکا۔غریب وہ ہوتاہے جسے مزید سے مزید دولت جمع کرنے کی ہوس ہوتی ہے ۔جو کبھی پوری نہیں ہوتی اور اپنی اس دولت کا انبار بغیر تصرف میں لائے چھوڑ کر دنیا سے چلاجاتا ہے ،ہائے بیچارہ ،یہ کہہ کر انہوں نے وہی اپنی پرانی گاڑی نکالی ،بیگم کو بٹھایا کتا پیچھے کی سیٹ پر بیٹھا اور گھومنے کے لئے شہر کی طرف روانہ ہوگئے ۔ایک دوسری مثال بہت ہی تازہ،پچھلے ہفتے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹرو ڈو نے قائم کی، بلجیم کے وزیر اعظم جو آفیشل دورے پر آئے تھے ایک ریسٹورنٹ میں ان کو لنچ کرایا صرف ایک آئٹم کھانے میں سوپ کے ساتھ اور گرمی کی وجہ سے آئس کریم دونوں کے آگے کھانے والی میز پر دیکھی گئی۔پچھلے دنوں امریکہ کے سابق صدر اُوباما نے بھارتی صدر کو رات کے کھانے میں صرف ایک ویجیٹیرین تھالی پیش کی ۔خود امریکہ کے صدر صدارتی محل چھوڑنے سے پہلے آخری لنچ میں اپنے اسٹاف کا خود سروےکرتے ہیں ۔آج بھی وہ اپنے گھر کی گروسری خریدتے شگاگو میں اپنی اہلیہ کے ساتھ دیکھے گئے اور بھی بہت سے امیر ترین ممالک کے سربراہان کی مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔UKکے آخری سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون 10ڈائوننگ اسٹریٹ کی رہائش گاہ سے اپنا سامان خود ٹرک میں لاد کر لے جاتے دیکھے گئے تھے۔میں عمرے کے لئے مکہ میں تھا کسی نے مجھے واٹس اپ پر ہمارے حکمران جو حا ل ہی میں عمرے کے لئے معہ اپنے دوستوں ،وزیروں ،رشتہ داروں کے ہمراہ مسجد نبوی میں پولیس اور فوج کے جوانوں کے جھرمٹ میں داخل ہوئے تو بہت سے دل جلے بھی عبادت کررہے تھے ۔لوگوں نے اُن کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھا ،اور جو جملہ کہا وہ لکھنے سے قاصر ہوں پھر اُس سے ملتے جلتے جملوں کی تکرار بھی باآواز بلند سننے میں آئی ۔ ایسے ملتے جلتے ایک واٹس اپ گروپ پر ہمارے سابق صدر امریکہ کے ایک بہت مہنگے اسپتال سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بہت قیمتی سوٹ میں بہت ہی قیمتی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے دیکھے گئے ۔ایک پاکستانی نوجوان نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور باآواز بلند کہا کہ زرداری صاحب ہر طرف پاکستان میں بم پھٹ رہے ہیں ،عوام مررہے ہیں اور آپ یہاں مزے کررہے ہیں، جواب دیں وہ جواب کیا دیتے اُن کے ساتھیوں نے جلدی گاڑی کا دروازہ کھولا اُن کو اگلی سیٹ پربٹھاکر روانہ کردیا ۔اور یہ بھی سننے میں آیا کہ کہا کہ یا ر دیکھنا اُس کی ویڈیو تو نہیں بنی ۔آج کل میڈیا بہت ترقی کرچکا ہے ۔عوام بھی بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحما ن جو اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ لند ن کے ایک ریسٹورنٹ سے نکلے تو چند من چلے پاکستانی نوجوانوں نے ان کو گھیرنے کی کوشش کی تو وہ بھی تیزی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے لگے توان کی شان میںآوازیں گونجتی رہیں ۔خود ہمارے خادم اعلیٰ لندن میں بغیر پروٹوکول ایک ٹیکسی کو روکنے کے لئے آگے بڑھے ان کے ساتھ بھی عوام جوبس اسٹینڈ پر بس کا انتظار کررہے تھے بھڑک اُٹھے۔ وہ وہ جملے ان کے لئے کہے گئے بس کیا لکھوں یہ دل جلوں کے دلوں کی آواز تھی ۔وہ ان آزاد ملکوں میں اپنے لیڈروں کو اگر غلط کام کرتے دیکھیں تو نہیں چھوڑتے کیونکہ اُن کے ٹیکس سے حکومتیں چلتی ہیں ۔خو دسوچیں یہ مقروض ترین ملک جس کا بال بال گروی رکھ کر ہمارے حکمراں مزے کی زند گی گزاررہے ہیں بھلا ہمارے صدرکے صدارتی محل کا خرچہ 75کروڑ روپیہ اور وزیراعظم کا 124کروڑ روپیہ ،خادم اعلیٰ کے لئے 3ارب کا جیٹ طیارہ اُس پر بھی یہ نعرہ کہ آج تک کوئی کرپشن ثابت نہیں کرسکا ۔سپریم کورٹ ،جے آئی ٹی دونوں وقت ضائع کررہی ہیں ۔روزانہ صبح 8بجے اٹھ کر ایک نئی کہانی قوم کو سننے کو ملتی ہے ۔حزب اختلاف ،حزب اقتدار کو کرپٹ حکومت کا لقب دیتی ہے اور حز ب اقتدار کہتی ہے کہ پی پی پی ملک کو لوٹ کر کھا گئی ۔سارا کا سارا شہر خالی ہوگیا ،قاضی بیچارہ ثبوت کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہا ہے۔کس کس کی مثالیں لکھوں یہ ہمارے حکمراںگزشتہ 40سال سے قوم کا وقت ضائع کررہےہیں۔آج تک درجنوں اداروں کی موجودگی میں ایک کو بھی سزا نہیں ہوسکی۔
ہائے رے بے چاری پاکستانی قوم!

تازہ ترین