• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک نہایت عزیز دوست اور عالم دین اور میرے عزیز دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی کے بڑے بھائی پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے بارے میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ان کو ہم سے جدا ہوئے تقریباً ساڑھے سات سال ہوگئے ہیں مگر جو تاثرات انھوں نے 60 سال کی کم عمر میں دنیائے اسلام پر چھوڑے ہیں وہ نہایت قابل تحسین ہیں۔ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ایک دوست نے ان کی کتاب ’’محاضرات قرآنی‘‘ میں بیان کردہ ایک واقعہ مجھے روانہ کیا، یہ اس قدر دلچسپ اور اہم ہے کہ میں وہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے بھائی محمود احمد غازیؒ مرحوم کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں کچھ عرض کرنا پسند کرونگا اس میں عزیز دوست پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن کی رہنمائی شامل حال رہی ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی 1950 میں پیدا ہوئے 26 دسمبر2010کو 60 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا، اور علوم و فنون پر دسترس کے حوالے سے بھی۔ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان میں بھی مہارت رکھتے تھے، قرآن و سنت، سیرت و تاریخ، تعلیم، اَدب، فقہ، کلام، اور اَدب عربی کے ساتھ ساتھ قانون پر مہارت رکھتے تھے۔ آپ نے اردو، انگریزی اور عربی میں دو درجن سے زائد کتب چھوڑی ہیں، غیرمطبوعہ لیکچرز اور بیانات اس کے علاوہ ہیں، جو سینکڑوں میںہیں اور پھر ان کی کتب کے فارسی، سندھی، پشتو، چینی اور دیگر زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے۔ڈاکٹر محمود احمد غازی بہت سے مشہور قومی اور بین الاقوامی فورمز کے ممبر بھی رہے۔آپ کی بین الاقوامی حیثیت بھی مسلم تھی اور بین الاقوامی فورمز پر بھی اسلام اور پاکستان کی نمائندگی درجنوں بار فرمائی ۔ آئیے ہم پروفیسر محمد احمد غازی مرحوم غازی کی زبانی اس حیرتناک واقعہ کو پڑھتے ہیں، اس کو آپ لاتعداد قرآنی معجزات میں سے ایک معجزہ سمجھ سکتے ہیں۔
قرآن سے متعلق ایک ایسی عجیب و غریب حقیقت جو انتہائی حیران کن بھی ہے اور متاثر کن بھی۔ یہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی کتاب ’’محاضرات قرآنی‘‘ کے ایک اقتباس کا حوالہ ہے۔ غازی صاحب لکھتے ہیں ’’آپ نے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کا نام سنا ہوگا، انہوں نے خود براہ راست مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ غالباً 1957-1958 ء میں ایک شخص ان کے پاس آیا۔ ان کی زندگی کا یہ ایک عام معمول تھا کہ ہر روز دو چار لوگ ان کے پاس آتے اور اسلام قبول کرتے تھے۔ وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا کہ ایک صاحب آئے اور کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت ان کو کلمہ پڑھوایا اور اسلام کا مختصر تعارف ان کے سامنے پیش کردیا۔ اپنی بعض کتابیں انہیں دے دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی شخص ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا تھا تو وہ اس سے یہ ضرور پوچھا کرتے تھے کہ اسے اسلام کی کس چیز نے متاثر کیا؟ 1948 سے 1996 تک یہ معمول رہا کہ ڈاکٹر صاحب کے دست مبارک پر اوسطاً دو افراد روزانہ اسلام قبول کیا کرتے تھے۔ عموماًلوگ اسلام کے بارے میں اپنے جو تاثرات بیان کیا کرتے تھے وہ ملتے جلتے ہوتے تھے۔ ان میں نسبتاً زیادہ اہم اور نئی باتوں کو ڈاکٹر صاحب اپنے پاس قلم بند کرلیا کرتے تھے۔ اس شخص نے جو بات بتائی، وہ ڈاکٹر صاحب کے بقول بڑی عجیب و غریب اور منفرد نوعیت کی چیز تھی اور میرے لئے بھی بے حد حیرت انگیز تھی۔ اس نے جو کچھ کہا، اس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا ارشاد تھا کہ میں اسے بالکل نہیں سمجھا اور میں اس کے بارے میں کوئی فنی رائے نہیں دے سکتا۔ اس شخص نے بتایا:میرا نام ژاک ژیلبیرہے۔ میں فرانسیسی بولنے والی دنیا کا سب سے بڑا موسیقار ہوں۔ میرے بنائے اور گائے ہوئے گانے فرانسیسی زبان بولنے والی دنیا میں بہت مقبول ہیں۔ آج سے چند روز قبل مجھے ایک عرب سفیر کے ہاںکھانے کی دعوت میں جانے کا موقع ملا۔
جب میں وہاں پہنچا تو وہاں سب لوگ جمع ہوچکے تھے اور نہایت خاموشی سے ایک خاص انداز کی موسیقی سن رہے تھے۔جب میں نے وہ موسیقی سنی تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے یہ موسیقی کی دنیا کی کوئی بہت ہی اونچی چیز ہے‘ جو یہ لوگ سن رہے ہیں۔ میں نے خود آوازوں کی جو دھنیں اور ان کا جو نشیب و فراز ایجاد کیا ہے، یہ موسیقی اس سے بھی بہت آگے ہے، بلکہ موسیقی کی اس سطح تک پہنچنے کے لئے ابھی دنیا کو بہت وقت درکار ہے۔ میں حیران تھا کہ آخر یہ کس شخص کی ایجاد کردہ موسیقی ہوسکتی ہے اور اس کی دھنیں آخر کس نے ترتیب دی ہیں۔ جب میں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ یہ دھنیں کس نے بنائی ہیں تو لوگوں نے مجھے اشارہ سے خاموش کردیا لیکن تھوڑی دیر بعد پھر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پھر یہی بات پوچھی، لیکن وہاں موجود حاضرین نے مجھے خاموش کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے دوران وہ فن موسیقی کی کچھ اصطلاحات بھی استعمال کررہا تھا’ جن سے میں واقف نہیں‘ کیونکہ فن موسیقی میرا میدان نہیں۔
قصہ مختصر جب وہ موسیقی ختم ہوگئی اور وہ آواز بند ہوگئی تو پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ موسیقی نہیں تھی‘ بلکہ قرآن مجید کی تلاوت ہے اور فلاں قاری کی تلاوت ہے۔ موسیقار نے کہا کہ یقیناً یہ کسی قاری کی تلاوت ہوگی اور یہ قرآن ہوگا، مگر اس کی یہ موسیقی کس نے ترتیب دی ہے اور یہ دھنیں کس کی بنائی ہیں؟ وہاں موجود مسلمان حاضرین نے بیک زبان وضاحت کی کہ نہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی ہیں اور نہ ہی یہ قاری صاحب موسیقی کی ابجد سے واقف ہیں۔ اس موسیقار نے جواب میں کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی نہ ہوں لیکن اسے یقین دلایا گیا کہ قرآن مجید کا کسی دُھن سے یا فن موسیقی سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ یہ فن تجوید ہے اور ایک بالکل الگ چیز ہے۔ اس نے پھر یہ پوچھا کہ اچھا مجھے یہ بتائو کہ تجوید اور قرأت کا یہ فن کب ایجاد ہوا؟ اس پر لوگوں نے بتایا کہ یہ فن تو چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو قرآن مجید عطا فرمایا تھا تو فن تجوید کے اصولوں کے ساتھ ہی عطا فرمایا تھا۔ اس پر اس موسیقار نے کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں کو قرآن مجید اسی طرح سکھایا ہے جیسا کہ میں نے ابھی سنا ہے تو پھر بلاشبہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس لئے کہ فن موسیقی کے جو قواعد اور ضوابط اس طرز قرأت میں نظر آتے ہیں وہ اتنے اعلیٰ و ارفع ہیں کہ دنیا ابھی وہاں تک نہیں پہنچی۔
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب فرماتے تھے کہ میں اس کی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ بعد میں، میں نے اور بھی قراء کی تلاوت قرآن کو سنا، مسجد میں جاکر سنا اور مختلف لوگوں سے پڑھوا کر سنا اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اگر یہ اللہ کی کتاب ہے تو اس کے لانے والے یقیناً اللہ کے رسول تھے، اس لئے آپ مجھے مسلمان کرلیں۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اسے مسلمان کرلیا لیکن میں نہیں جانتا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا تھاوہ کس حد تک درست تھا، اس لئے کہ میں اس فن کا آدمی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں نے ایک الجزائری مسلمان کو جو پیرس میں زیر تعلیم تھا، اس نئے موسیقار مسلمان کی دینی تعلیم کے لئے مقرر کردیا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد وہ دونوں میرے پاس آئے اور کچھ پریشان سے معلوم ہوتے تھے۔ الجزائری معلّم نے مجھے بتایا کہ وہ نومسلم قرآن مجید کے بارے میں کچھ ایسے شکوک کا اظہار کررہا ہے جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ جس بنیاد پر یہ شخص ایمان لایا تھا وہ بھی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی اب اس کے شکوک کا میں کیا جواب دوں گا اور کیسے دوں گا۔ لیکن اللہ کا نام لے کر پوچھا کہ بتائو تمہیں کیا شک ہے؟ اس نومسلم نے کہا کہ آپ نے مجھے یہ بتایا تھا اور کتابوں میں بھی میں نے پڑھا ہے کہ قرآن مجید بعینہٖ اسی شکل میں آج موجود ہے جس شکل میں اس کے لانے والے پیغمبرﷺ نے اسے صحابہ کرامؓ کے سپرد کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ اب اس نے کہا کہ ان صاحب نے مجھے اب تک جتنا قرآن مجید پڑھایا ہے اس میں ایک جگہ کے بارے میں مجھے لگتاہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور حذف ہوگئی ہے۔ اس نے بتایا کہ انہوں نے مجھے سورہ نصر (آیت 2،3) پڑھائی ہے اور اس میں افواجاً اور فسبّح کے درمیان خلا ہے۔ جس طرح انہوں نے مجھے پڑھایا ہے وہاں افواجاً پر وقف کیا گیا ہے۔ وقف کرنے سے وہاں سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے جو نہیں ٹوٹنا چاہئے جبکہ میرا فن کہتا ہے کہ یہاں خلا نہیں ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی، اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس شبہ کا جواب کیا دیں اور کس طرح مطمئن کریں۔ کہتے ہیں کہ میں نے فوراً دنیائے اسلام پر نگاہ دوڑائی تو کوئی ایک فرد بھی ایسا نظر نہیں آیا جو فن موسیقی سے بھی واقفیت رکھتا ہو اور تجوید بھی جانتا ہو۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ چند سیکنڈ کی شش و پنج کے بعد بالکل اچانک اور یکایک میرے ذہن میں ایک پرانی بات اللہ تعالیٰ نے ڈالی کہ اپنے بچپن میں جب مکتب میں قرآن مجید پڑھا کرتا تھا تو میرے معلم نے مجھے بتایا تھا کہ افواجاً پر وقف نہیں کرنا چاہئے بلکہ افواجاً کو بعد کے لفظ سے ملا کر پڑھا جائے۔ ایک مرتبہ میں نے افواجاًپر وقف کیا تھا تو اس پرانہوں نے مجھے سزا دی تھی اور سختی سے تاکید کی تھی کہ افواجاً کو آگے ملا کر پڑھا کریں۔ میں نے سوچا کہ شاید اس بات سے اس کا شبہ دور ہوجائے اور اس کو اطمینان ہوجائے۔ میں نے اسے بتایا کہ آپ کے جو پڑھانے والے ہیں وہ تجوید کے اتنے ماہر نہیں ہیں۔ دراصل یہاں اس لفظ کو غنہ کے ساتھ آگے سے ملا کر پڑھا جائے گا۔ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْْ۔ ڈاکٹرصاحب کا اتنا کہنا تھا کہ وہ خوشی سے اچھل کر کھڑا ہوگیا اور خوش ہوا اور کہنے لگا کہ واقعی ایسے ہی ہونا چاہئے۔ یہ سن کر اس کو میں نے ایک دوسرے قاری کے سپرد کردیا جس نے اس شخص کو پورے قرآن پاک کی تعلیم دی۔ وہ وقتاً فوقتاً مجھ سے ملتا تھا اور کہتا تھا کہ واقعی یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔وہ بہت اچھا مسلمان ثابت ہوا اور ایک کامیاب اسلامی زندگی گزارنے کے بعد 1970 ءکے لگ بھگ اس کا انتقال ہوگیا۔
اس واقعے سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی جو صوتیات ہے، یہ علم و فن کی ایک ایسی دنیا ہے جس میں کوئی محقق آج تک نہیں اترا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کے اس پہلو پر اب تک کسی نے اس انداز سے غور و خوض کیا ہے۔‘‘
(محاضرات قرآنی، پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ)

تازہ ترین