• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں عیدالفطر خوشی اور غم کے امتزاج کے ساتھ منائی گئی۔ عید کی خوشیوں میں اِس بار پاکستان کا بھارت کو شرمناک شکست دے کر چیمپئنز ٹرافی حاصل کرنا شامل تھا مگر عید سے چند روز قبل ملک کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات اور چاند رات کو پیش آنے والے سانحہ بہاولپور میں 180 افراد کی اموات نے پوری قوم کو سوگوار کردیا جس کے باعث کئی ٹی وی چینلز نے عید کیلئے ریکارڈ کئے گئے ’’میوزیکل عید شوز‘‘ نشر نہیں کئے۔ بہرحال خوشی اور غم کا نام ہی زندگی ہے۔ خوشی بانٹنے سے اضافہ اور غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے۔ میں ہر عید پر معمول کے مطابق سفارتکار کی حیثیت سے کراچی میں متعین مختلف اسلامی ممالک کے سفارتکاروں کے ہمراہ باغ جناح میں گورنر سندھ کے ہمراہ نماز عید کی ادائیگی کے بعد والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کیلئے جاتا ہوں جہاں سے واپسی پر عمائدین شہر اور بزنس کمیونٹی کے لیڈرز کے ہمراہ گورنر ہائوس کراچی میں گورنر سندھ سے ملاقات کرتا ہوں۔ بعد ازاں گھر پر میڈیا کے نمائندوں اور پارٹی ورکرز سے ملاقات ہوتی ہے جبکہ فیملی میں بڑا ہونے کی وجہ سے بہنیں اور بھائی اپنے بچوں کے ہمراہ عید کے پہلے روز میرے گھر مدعو ہوتے ہیں۔ اس بار عید کی شام ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید نے اپنی رہائش گاہ پر چائے پر مدعو کیا جہاں بزنس مینوں نے کراچی میں 4 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا۔ ڈی جی رینجرز کے بقول سانحے کی وجہ پولیس اہلکاروں کی لاپروائی اور غفلت ہے جو غیر مسلح ہوکر ڈھابے پر افطار میں مصروف تھے جس کا دہشت گردوں نے فائدہ اٹھایا۔ میجر جنرل محمد سعید کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہوسکتا ہے جنہیں جلد ہی پکڑلیا جائے گا۔
عید کے دوسرے روز بزنس لیڈرز کے ساتھ عید ملن اجتماع ہوتا ہے۔ اس بار بھی بزنس لیڈر ایس ایم منیر نے اپنی رہائش گاہ پر بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کے ساتھ عید ملن کا اہتمام کیا جس میں میرے علاوہ گورنر سندھ محمد زبیر نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ گزشتہ 15 سالوں سے میرا یہ معمول رہا ہے کہ عید کے دوسرے روز اپنے بچوں کے ہمراہ سوشل اسٹوڈنٹس فورم کے زیر اہتمام ’’ہفتہ عیادت‘‘ میں شرکت کرتا ہوں۔ اس سال بھی عید پر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (NICH) کی چھٹی منزل پر زیر علاج بچوں میں تحائف تقسیم کئے۔ اس موقع پر وہاں موجود زیادہ تر والدین نے بچوں کے علاج پر اطمینان کا اظہار کیا مگر اینمک پلاسٹک جس کا انتہائی مہنگا علاج بون میرو ہے اور علاج نہ کروانے پر مرض میں مبتلا بچوں کو پوری زندگی تازہ خون فراہم کرنا پڑتا ہے، سے متاثرہ بچوں کے والدین نے تازہ خون کی بروقت عدم فراہمی کی شکایت کی۔ والدین کے بقول انہیں تازہ خون حاصل کرنے کیلئے بلڈ بینک کو اتنی ہی مقدار میں اپنا یا خاندان کے کسی فرد کا خون دینا پڑتا ہے اور خون کی طویل عرصے تک فراہمی ان کیلئے نہایت مشکل امر ہے۔ کراچی میں بے شمار فلاحی بلڈ بینک کام کررہے ہیں۔ بلڈ بینکوں سے درخواست ہے کہ وہ NICH میں زیر علاج اینمک پلاسٹک سے متاثرہ بچوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر خون کی فراہمی ممکن بنائیں۔ گزشتہ عید پر جب NICH میں زیر علاج بچوں میں تحائف تقسیم کرنے گیا تو وہاں موجود پیپلز اسٹوڈنٹس فورم (PSF) کے نمائندوں نے اسپتال میں قائم کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے دورے کی دعوت دی۔ اس موقع پر کچھ نومولود بچوں کی مائوں سے ملاقات ہوئی جو اسپتال میں بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث تشویش میں مبتلا تھیں۔یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک پرائیویٹ این جی او نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت حکومت سندھ کے اشتراک سے NICH میں جدید کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم نصب کیا ہے جس سے 190 سی سی ٹی وی کیمرے منسلک ہیں۔ ان کیمروں کے ذریعے NICH کے استقبالئے سے لے کر بچوں کے ہر وارڈ میں موجود افراد کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور مانیٹرنگ سسٹم میں گزشتہ 40 دن کا ڈیٹا محفوظ رہتا ہے۔ اس موقع پر سینٹر کے انچارج نے کنٹرول سسٹم کے بارے میں بتایا کہ ماضی میں زیادہ تر نومولود بچے انکیوبیٹر سے اغواکرلئے جاتے تھے جس کی روک تھام کیلئے NICH کے انکیوبیٹرز میں موجود 60 نومولود بچوں کے ہاتھوں پر ٹریکنگ آئی ڈیز (IDs) لگائی گئی ہیں جن کے ذریعے بچوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انکیوبیٹر میں اُن بچوں کو رکھا جاتا ہے جو پیدائش کے وقت انتہائی کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو خصوصی نگہداشت کے ذریعے اِس قابل کیا جاتا ہے کہ وہ ماں کی آغوش میں دیئے جاسکیں اور دوران علاج انکیوبیٹرز میں موجود تمام بچوں کی نقل و حرکت ریکارڈ کی جاتی ہے تاکہ اگر کوئی شخص کسی بچے کو اغواکرنے کی کوشش کرے تو اطلاعی الارم بجنے پر اُسے فوراً پکڑا جاسکے۔ سینٹر کے انچارج کے بقول کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی تنصیب کے بعد سے اب تک کسی بچے کے اغوا کی شکایت سامنے نہیں آئی جس سے نومولود بچوں کی مائوں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں تقریباً 12 لاکھ سے زائد بچے اغوا یا اسمگل کرلئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اغواکئے جانے والے زیادہ تر بچے یا تو بے اولاد جوڑوں کو فروخت کردیئے جاتے ہیں یا پھر اُنہیں بھیک منگوانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بچہ چند دن کا ہو یا چند سال کا، اپنی ماں کی گود میں ہی سکون محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی گودمیں بچے کیلئے ایک انمول کشش رکھی ہے لیکن جو مائیں غفلت، کوتاہی یا کسی مجبوری کے باعث بچوں کو اپنی قربت سے محروم رکھتی ہیں، اُن کے بچے زندگی بھر ماں کی محبت کی کمی اور تشنگی محسوس کرتے رہتے ہیں لہٰذا ماں اور بچے کے درمیان ہر عمر میں قربت قائم رہنا چاہئے۔ لخت جگر کے بچھڑنے کے کرب کا اندازہ والدین سے بڑھ کر کوئی اورنہیں لگاسکتا لہٰذا حکومت اور بچوں کے اغوا کی روک تھام میں مصروف عمل این جی اوز سے درخواست ہے کہ وہ نومولود بچوں کے اغوا کے سدباب کیلئے NICH میں نصب کیا گیا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ملک بھر میں متعارف کرائیں تاکہ کسی ماں کی گود نہ اُجڑ سکے۔

تازہ ترین