• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما پیپرز کے ضمن میں کائونٹ ڈاون شروع ہو چکا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ کا عمل درآمد کمیشن آئین کے تحت حتمی فیصلہ صادر کرنے کے لئے جو بھی طریقہ کاراختیار کرے عام انتخابات معمول کے مطابق منعقد ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر فیصلہ وزیر اعظم اور انکے خاندان کے حق میں آتا ہے تو اپوزیشن بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کسی صورت چین کی بانسری نہیں بجانے دے گی اور پانچ رکنی لارجر بنچ کے فیصلے کو لیکر حکومت مخالف احتجاج کی حکمت عملی پر عملدرآمد شروع ہو جائیگا۔ دوسری صورت میں اگر وزیر اعظم پاناما کاپل صراط عبور نہیں کر پاتے تو مسلم لیگ ن کی صفوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح نئے وزیر اعظم کا انتخاب عمل میں لا کر مدت پوری کرنے کا کڑوا گھونٹ زہر مار کرنا پڑے گا جس کیلئے بڑا دل گردہ چاہئے جو فی الحال اقتدار پر فائز طاقت وروں کے بس سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے اپنے انتخابی حلقے میں طرز تخاطب سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمراں جماعت اس فیصلے کو با آسانی ہضم نہیں کرے گی۔ ہوا کے رخ کو دیکھتے ہوئے بڑے گھر سے ان پارٹی رہنمائوں کو بھی چپ کا روزہ توڑنے کا پیام دیا جا چکا جنہیں پاناما زدوں کی حمایت سے سے زیادہ اپنی ساکھ عزیز ہے۔ کسی ممکنہ خطرے کی بو سونگھتے ہوئے حکمراں جماعت کے اندر متبادل وزیر اعظم کے حوالے سے کھسر پھسر اور چہ مگوئیاں ضرورجاری ہیں لیکن اس ملین ڈالر سوال کو زبان پر لانے کی ہمت کسی میں نہیں۔ اگر مگر یا فرض کریں کی صورت میں تو لاٹری راجہ پرویز اشرف جیسے کسی کارکن کی بھی نکل سکتی ہے اسلئے’’سب‘‘ امید سے ہیں۔ مضبوط جمہوری معاشروں میں تو کسی بھی ناگہانی صورتحال میں انتظامی خلا کو پرکرنے کی منظم منصوبہ بندی معمول کا حصہ تصور کی جاتی ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں جہاں جمہوریت ابھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہو،جہاں نصف مدت آمریت نگل چکی ہو،جہاں موروثی سیاست پنجے گاڑھے ہوئے ہو اور جہاں سیاسی جماعتیں فرد واحد کے دم سے قائم ہوں وہاں متبادل سیاسی قیادت کے بارے میں گمان کرنا بھی شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری کا مستقبل کی قیادت کے بارے میں ذکر صرف بلاول اور آصفہ بھٹو تک محدود ہو جاتا ہے جبکہ نواز شریف کی قسمت کے فیصلے کی نوبت آئے تو مریم نواز میری آواز ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے۔ پاکستان میں مستقبل کی سیاسی قیادت کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل ایک غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ نے ایک دلچسپ رپورٹ شائع کی تھی ، یہ رپورٹ پاناما پیپرز کا قضیہ سامنے آنے سے پہلے جاری کی گئی تھی جس میں ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ان افراد کا ذکر کیا گیا تھا جو ممکنہ طور پہ آئندہ دس سے پندرہ سال میں پاکستان کا وزیر اعظم بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اپنی نوعیت کی اس منفرد رپورٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے 21افراد کو حتمی طور پر منتخب کیا گیا تھا کہ وہ مستقبل میں پاکستان کی قیادت کرنے کا بیڑا اٹھا سکتے ہیں۔ ان افراد کا انتخاب اکیس رکنی اسٹیئرنگ کمیٹی نے شارٹ لسٹ کئے گئے پچاس سیاسی رہنمائوں میں سے کیا تھا، اس اسٹیئرنگ کمیٹی میں مختلف شعبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شامل تھیں جبکہ مستقبل کی سیاسی قیادت کے انتخاب کا پیمانہ 13 مختلف نکات کو بنایا گیا تھا جن میں عوامی مقبولیت سے لیکر حکومتی امور چلانے کی اہلیت شامل تھے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم بننے کے اہل ان 21 افراد میں سے دس کا تعلق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے تھا جبکہ پانچ پیپلز پارٹی،تین پاکستان تحریک انصاف ، دو پاکستان مسلم لیگ ق اور ایک جماعت اسلامی سے وابستگی رکھتے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے جن دس افراد کو فہرست میں شامل کیا گیا تھا ان میں شہباز شریف،حمزہ شہباز،مریم نواز، اسحاق ڈار، چوہدری نثار، احسن اقبال، خرم دستگیر، ماروی میمن، اویس لغاری اور عمر ایوب شامل تھے۔ غیر سرکاری تنظیم کی اس رپورٹ میں مستقبل کے ممکنہ حکمرانوں کی تعلیمی قابلیت،اہم کامیابیوں،سیاسی سفر،مالی حیثیت،اہم امور پر نقطہ نظر اور پاکستان کیلئے ان کے وژن کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں شہبازشریف کو مستقبل میں پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کا اہل قرار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ پرویز مشرف کے دور اقتدار اور پالیسیوں کو پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشتگردی پھیلانے کا ذمہ دار گردانتے ہیں،وہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بے مثال تعلقات اور افغانستان کے ساتھ وسیع تجارت کے حامی ہیں۔ مستقبل کے ممکنہ وزیر اعظم شہبازشریف سی پیک کو گیم چینجر سمجھتے ہیں جس سے پاکستان میں ملازمتوں کے بیشمار مواقع پیدا ہونے کے ساتھ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم بننے کے اہل شہباز شریف پاکستان میں مساوات کے قائل ہیں، وہ طاقت کے ساتھ سماجی اور معاشی اصلاحات کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کے قائل ہیں۔شہباز شریف پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بھی بنانے کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح حمزہ شہباز کو بھی وزیر اعظم پاکستان بننے کا اہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ لندن اسکول آف اکنامکس سے ایل ایل بی کرنیوالے شریف خاندان کے یہ فرزند لوڈ شیڈنگ کو پاکستان کے اولین مسائل میں شمار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے ترقیاتی منصوبے بنانے کیلئے خود مختار ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حمزہ شہباز ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئےعلماء کے کردارکو نہایت اہم سمجھتے ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم بننے کے اہل حمزہ شہباز اسلام آباد اور بھارت کے درمیان تجارت اور بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم ہی پاکستان کی ترقی کی کنجی ہے۔ جناب اسحق ڈار کو ملک کا ممکنہ وزیر اعظم شمار کرتے ہوئے اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ سے بطور چارٹرڈ اکائونٹینٹ فارغ التحصیل وفاقی وزیر خزانہ اقتصادی اصلاحات کے ذریعے ملک کی معاشی ترقی کو سات فیصد کی سطح تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ان کے نزدیک اربوں ڈالرز مالیت کا سی پیک منصوبہ نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ خطے کی ترقی کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ وہ چار ایز، اکانومی، انرجی، ایجوکیشن اور ایکسٹریمزم پر بھرپور توجہ دے کر پاکستان کا مستقبل روشن کرنا چاہتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم کی اس دلچسپ رپورٹ میں مریم نواز کو بھی پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہونے کی اہل قرار دیا گیا ہے۔مستقبل کی اس ممکنہ قائد کے بارے میں ذکر کیا گیا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں پوسٹ گریجویشن کی جبکہ کیمبرج یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ وہ ملکی سیاست میں گزشتہ عام انتخابات کے دوران متحرک ہوئیں۔ انہوں نے خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے۔رپورٹ کے مطابق مریم نواز کوشریف خاندان کا سیاسی وارث تصورکیاجاتا ہے، وہ پرویز مشرف کی آمریت اور انکے دور اقتدار میں امریکہ کا اتحادی بننے کی سخت ناقد ہیں، وہ پاکستانی سیاست کو نئی بلندیوں تک لیجانے کی خواہاں ہیں جبکہ وہ ایسا پاکستان بنانے کی خواہش مند ہیں جس میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں، رپورٹ کے مطابق مستقبل کی ممکنہ وزیر اعظم مریم نواز پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں نام تو چوہدری نثار اور احسن اقبال جیسے دیگر رہنمائوں کے بھی شامل تھے جو وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہونے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ…
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

تازہ ترین