پاکستان میں ڈمپر چلانے والے مرد حضرات کی غیر ذمے دارانہ ڈرائیونگ سے پوری قوم پناہ مانگتی ہے لیکن اب کوئی ڈر نہیں کیونکہ ان کے متبادل تھر پارکرکی عورتیں ابھرکر سامنے آرہی ہیں ۔
جی ہاں !بوند بوند کو ترستا حکومتی لاپرواہی اور عدم توجہی سے بری طرح متاثر پاکستان کا قیمتی اثاثہ ضلع تھر پارکر نہ صرف معدنی دولت سےمالا مال ہے بلکہ اب یہاں کی ان پڑھ خواتین ا یک سال کی تربیت کے حصول کے بعد اگلے ماہ سے پیشہ ور ڈرائیور کے فرائض سرانجام دیں گی ۔
پاکستان جیسے ملک میں پیشہ ور ڈرائیور خواتین بہت کم پائی جاتی ہیں اگر موجود بھی ہیں تو کار یا بائیک جیسی ہلکی گاڑیاں چانے والی خواتین ۔
اب اگر ایسے میں تھر جیسے پسماندہ علاقے کی خواتین میں ڈمپر جیسی بھاری بھر کم گاڑی چلانے کا طوفان امڈ آئے تو اس کے پیچھے ایک وجہ علاقے میں پائی جانے غربت بھی ہے ۔
غربت کے باعث گزشتہ ایک سال سے تھر کی 30 خواتین ڈمپر چلانے کی تربیت حاصل کررہی ہیں اور اگلے ماہ تربیت مکمل ہونے کے بعد باقاعدہ ڈرائیونگ کا آغاز شروع کردیا جائے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق خواتین کا بطور ڈمپر ڈرائیورز انتخاب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ کا کہنا ہے کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔