• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی ہفتوں سے لگاتار میں آپ کو اردو کے بارے میں جھوٹ موٹ کی کہانیاں سنارہا تھا۔ ایسی تاریخ کے اوراق پلٹ رہا تھا جو کبھی نہ لکھی گئی اور نہ کبھی ادارے میں پڑھائی گئی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں جھوٹ لکھتا ہوں، جھوٹ بولتا ہوں اور جھوٹ لکھنے اور جھوٹ بولنے کے علاوہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اس دوران ایک بین الا قوامی ادارے کی جانب سے دسویں مرتبہ مجھے مطلع کیا گیا کہ دسویں مرتبہ میرا نام نامی اسم گرامی دنیا کے ایک سو مہا جھوٹوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ بین الاقوامی ادارہ Liars at large دنیا بھر میں جھوٹوں کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ ہر سال دنیا کے چیدہ چیدہ جھوٹوں کی فہرست شائع کرتا ہے۔ یہ میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میرا نام دنیا کے ایک سو مہا جھوٹوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ آپ کے لئے بھی اعزاز کی بات ہے کہ آپ آج تک جس جھوٹے کو انہماک سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں وہ کوئی چھوٹا موٹا جھوٹا نہیں ہے۔ آپ کےچہیتے جھوٹے کا شمار دنیا کے ایک سو مہا جھوٹوں میں ہوتا ہے۔ یہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کے لئےبھی بہت بڑا اعزاز ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ کسی ملک کے تمام باشندے سچے ہوں۔ دنیا بھر کے ممالک کی طرح پاکستان میں کھرے اور سچے لوگوں کے ساتھ ساتھ جھوٹے لوگ بھی رہتے ہیں۔ یہ کوئی اچھوتی بات نہیں ہے۔ امریکہ، روس، فرانس، جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا، انڈونیشیا، ملائیشیا، مصر، ترکی وغیرہ میں بھی سچے اور جھوٹے لوگ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ مگر دیگر ممالک اورپاکستان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ دیگر ممالک میں کسی جھوٹے کا مخفی رہنا امکان سے باہر ہے۔ وہاں کوئی جھوٹا شخص خود کو چھپا نہیں سکتا۔ مگر پاکستان میں جھوٹے بڑی کامیابی سے خود کو مخفی رکھ سکتے ہیں۔ کامیاب جھوٹے بلا کے ذہین ہوتے ہیں وہ کسی کو پتہ چلنے نہیں دیتے کہ وہ کس درجے کے جھوٹے ہیں۔ آپ کبھی بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ جس محکمے میں آپ ملازم ہیں، اس محکمے میں آپ کے کتنے کولیگ جھوٹے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ عبدالغفور کا اصلی یعنی سچا نام عبدالقدوس عرف عبدالشکور، عرف عبدالجبار، عرف عبدالستار، عرف عبدالرحمان ہے؟ یہ بات قطعی آپ کے علم میں نہیں ہوگی کہ پاکستان میں ایسے معتبر ادارے بھی ہیں جہاں دھڑلے سے جھوٹ بول کر آپ گنہگار کو بے گناہ اور بے گناہ کو گنہگار ثابت کرسکتے ہیں۔ ملزم کو آزادی اور مظلوم کو سزا دلوا سکتے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والے جھوٹے چونکہ بلا کے ذہین ہوتے ہیں اس لئے مرتے دم تک کسی کو پتہ لگنے نہیں دیتے کہ زندگی بھر انہوں نے جھوٹ بویا، جھوٹ کاٹا، جھوٹ کھایا اور جھوٹ پیا تھا۔ سراپا جھوٹ ہونے کے باوجود وہ سراپاسچ نظر آتے ہیں۔ وہ اقتدار کے ایوانوں میں مٹر گشت کرتے رہتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ان کا سکہ رائج الوقت چلتا رہتا ہے۔ ایسی صورت حال میں جھوٹوں کو متلاشی ادارے Liars at Large کو کیسے پتہ چلے کہ پاکستان میں کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے؟ اس بات کا میں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ ذہین ترین جھوٹوں کے درمیاں میں احمق ترین جھوٹا ہوں۔ ذہین جھوٹے کبھی ظاہر ہونے نہیں دیتے کہ وہ مہا جھوٹے ہیں۔ میں چونکہ ذہین نہیں ہوں اور پرلے درجہ کا احمق ہوں اس لئےمیں کبھی نہیں چھپاتا کہ میں پیدائشی جھوٹا ہوں۔ پیدا ہوتے ہی ہر نوزائیدہ کی طرح رونے کے بجائے میں نے چپ سادھ لی تھی۔ وہ میرا پہلا جھوٹ تھا۔ دائی نے میری ماں سے کہا تھا: تجھے ایک کالا کلوٹا مرا ہوا بچہ پیدا ہوا ہے۔ اسے قبر میں دفنانے کا بندوبست کرو۔ پچھلے جنم میں قبر کے عذاب کی سنی ہوئی باتیں مجھے یاد تھیں۔ حالانکہ پچھلے جنم میں مرنے کے بعد میں قبر میں دفن نہیں ہوا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ دریا کنارے جانگیہ دھوتے ہوئے میں دریا میں گر پڑا تھا۔ ایک مگر مچھ نے مجھے نگل لیا تھا اور میں مر گیا تھا۔ اس لئے میں قبر میں دفن نہیں ہوا تھا۔ مگر قبر کے عذاب کی سنی ہوئی ہیبت ناک باتیں مجھے اس جنم میں بھی یاد تھیں۔ دائی کی بات سن کر میں چیخ مار کر رو پڑا تھا۔ میرے جھوٹے ہونے کا بھانڈا پھوٹ پڑا تھا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میں پیدائشی جھوٹا ہوں۔ مگر دیگر جھوٹوں کی طرح میں ذہین نہیں ہوں۔ میں انتخابات میں ووٹ دیتا ہوں۔ مگر میں ووٹ لے نہیں سکتا۔ ووٹ لینے کے لئے ذہین ہونا ضروری ہے اور ووٹ دینے کے لئے بیوقوف ہونا ضروری ہے۔ چونکہ میں ذہین نہیں ہوں اس لئےمیں کسی سے اپنے جھوٹے ہونےکی بات نہیں چھپاتا۔ دھڑالے سے جھوٹ بولتا ہوں۔ کھلم کھلا جھوٹ بولتا ہوں۔ پوری ایمانداری اور سچائی سے جھوٹ بولتا ہوں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ کے اس چہیتے جھوٹے کا نام دنیا کے ایک سو مہا جھوٹوں کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔ اس اعزاز پر ایک طرف مجھے فخر ہے اور دوسری طرف اپنے ادارے کی سرد مہری پر مجھے افسوس ہے۔ مجھے دکھ ہے۔ میں نے ادارے کے اہم ارکان سے کہا تھا کہ یہ کوئی چھوٹا موٹا اعزاز نہیں ہے۔ میرانام دنیا کے ایک سو مہا جھوٹوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مجھے دکھ ہے کہ آپ نے اتنی بڑی اور اہم خبر کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ میں آپ سے گزارش نہیں کرتا۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ کل کے اخبار کے پہلے صفحہ پر میری فرنچ کٹ داڑھی والی تصویر کے ساتھ چار کالمی خبر شائع کرنا۔ اور دوسرے روز میرے مختلف پوز میں نکلی ہوئی تصویروں کے ساتھ ایک فیچر شائع کرنا۔ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کی گنجائش نہیں ہے۔ اتوار کے اخبار میں پورے ایک صفحہ پر میرے کارنامے کو سراہا جائے۔ فرانسیسی، افسانوی، برطانوی اور روسی داڑھیوں میں نکلی ہوئی میری تصویروں کو بڑا کر کے دکھایا جائے۔ میں آپ کو سمجھا جارہا ہوں۔ دھمکی نہیں دے رہا۔ میں جیسا کہہ رہا ہوں کریں۔ ورنہ! یاد رکھیں کہ مجھے عنقریب آنے والے نئے اردو اخبار ’’خاموش‘‘ کی طرف سے بھرپور جھوٹ لکھنے کی آفر مل چکی ہے۔ میں نے اپنے ادارے کے اہم ارکان پر واضح کردیا ہے کہ اگر کل کے اخبار کے پہلے صفحہ پر میرے مہا جھوٹے ہونے کی چار کالمی خبر معہ میرے دلفریب فوٹو کے شائے نہیں ہوئی تو پھر نتیجہ بھگتنے کیلئےتیار ہوجائیں۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ جھوٹ بولنے کے علاوہ میں لوگوں کی پگڑیاں اچھال سکتا ہوں۔ ان کا بینڈ بجا سکتا ہوں۔ گالی گلوچ میں، میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ آپ ہوش کے ناخن لیں۔ ورنہ!

تازہ ترین