• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید سے ایک روز قبل احمد پور شرقیہ میں انتہائی خوفناک حادثے کے نتیجے میں 180سے زائد افراد زندہ جل کر مر گئے جبکہ تاحال جل کر مرنے والوں کا سلسلہ جاری ہے اور اللہ نہ کرے کہ مزید اموات ہوں۔ پاکستان میں آگ سے جو لوگ تیس فیصد بھی جل جائیں۔ ان کی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے جبکہ یہاں تو لوگ 80فیصد تک جل چکے ہیں۔ ان کو بچانا ناممکن ہے۔ قارئین آپ اخبارات میں پڑھ رہےہیں کہ ایک یا دو جلے ہوئے افراد روزانہ مر رہے ہیں۔ احمد پور شرقیہ کے اس المناک واقعے سے قبل بھی ہمارے ملک میں آج سے اٹھارہ برس قبل صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ کے علاقے اڈہ روڈو سلطان میں بھی آئل ٹینکر کا ایک حادثہ ہوا تھا۔ جس میں لوگ مال غنیمت کو لوٹنے کیلئے آ گئے اور آگ لگ گئی۔ 65افراد جل کر ہلاک ہو گئے۔ پھر 11جنوری 2015 کراچی میں غلط سمت سے آنے والا آئل ٹینکر کوچ سے ٹکرا گیا۔ جس کے نتیجے میں 62افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔بھڑکتے ہوئے تیل نے آج تک پاکستان میں سینکڑوں جانیں لی ہیں۔ حال ہی میں ہمیں ایک پرائیویٹ اسپتال کے بچوں کے برن وارڑ کی نگران نے بتایا کہ ہر پانچ منٹ بعد پاکستان میں ایک بچہ جل جاتا ہے اور اس وارڈ کے ڈاکٹر انتہائی شدید جلے ہوئے بچوں کو اپنے خرچ پر امریکہ علاج کیلئے لے کر جاتے ہیں جن میں کئی بچے صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ہم نے خود اس وار ڈ میں ایسے بچوں کو دیکھا ہے۔ کاش حکومت کے کسی اسپتال میں ایسا برن وارڈ ہو۔ آج سے کئی برس قبل کی بات ہے کھاریاں میں کسی اعلیٰ فوجی افسر کی بیوی کچن میں کوئی کام کرتے ہوئے جل گئی۔ اس وقت کہیں بھی کوئی برن وارڈ نہیں تھا۔ چنانچہ فوری طور پر کھاریاں میں برن وارڈ بنا اور اس کے بعد فوج کے کئی اسپتالوں میں برن یونٹ بن گئے۔ پاکستان میں احمد پور شرقیہ کے واقعے سے قبل دو واقعات ہوئے تھے۔ کیا اس وقت کی حکومت نے اس پر توجہ دی؟
کئی برس پرانی بات ہے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اس طرح آئل ٹینکر الٹ گیا اور ٹریفک کو دو کلو میٹر دور روک دیا گیا تھا اور پانچ مربع میٹر کا علاقہ گھیرے میں لے لیا گیا کسی کو آگے جانے کی اجازت نہ تھی۔ حتیٰ کہ شاہی مشیر کو بھی روکا ہوا تھا۔ جب تک بلدیہ اور فائر بریگیڈئر نے وہ علاقہ کلیئر نہیں کیاکوئی شہری وہاںسے گزرا نہیں۔ جب احمد پور شرقیہ میں یہ ٹینکر الٹا تو کیا وہاں کی بلدیہ، پولیس، فائر بریگیڈ اور ریسکیو 1122کا یہ فرض نہیں تھا کہ اس علاقے کو گھیرے میں لیتے اور کسی کو آئل ٹینکر کے قریب نہ جانے دیتے۔ کتنی افسوس ناک صورتحال ہے کہ آگ لگنے کے بعد تک بھی پولیس نہ پہنچی اور فائر بریگیڈ آگ لگنے کے بعد آ ئی۔ اس علاقے کا کوئی ایم پی اے، ایم این اے اور مقامی انتظامیہ کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔
پھر ہمارا قومی کردار کیا ہے؟ غریب لوگ تو پٹرول لوٹنے کیلئے گئے۔ اچھے بھلے گاڑیوں والوں نے بھی اپنی گاڑیاں روک کر پٹرول کے ڈبے ، پلاسٹک کے تھیلے، دودھ کے ڈبوں تک میں پٹرول ڈالنا شروع کر دیا۔ جس کے ہاتھ میں جو برتن لگا وہ اس میں پٹرول ڈالنے لگا۔ ہم نے کئی ویڈیوز دیکھیں۔ ہر کوئی دوسرے کو آواز دے رہا تھا کہ آ جائو بھئی آ جائو۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ارے اس تیل کے قریب مت آئو، یہ آگ ہے۔ یہ جہالت نہیں بلکہ لوٹ مار کی وہ روایت ہےجو حکمرانوں نے ڈالی ہے کسی مسجد کے لائوڈ اسپیکر سے یہ آواز آئی کہ بھائیو یہ لوٹ مار مت کرو۔ اس میں جان چلی جائے گی۔ حکومت کا یہ عالم ہے کہ اس سے قبل جھنگ اور کراچی میں اس نوعیت کے واقعات کے بعد کوئی اقدامات نہیں کئے۔
جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس آئل ٹینکر میں آٹھ ٹائر نہیںتھے جبکہ اس کے 22ٹائرز ہونے چاہئے تھے۔ ٹینکر میں صرف ایک ڈرائیور تھا جبکہ دو ہونے چاہئے تھے۔ ہائی وے اور موٹر وے پولیس پہلے سوئی رہی۔ نہ کسی نے اس آئل ٹینکر کو چیک کیا کہ مطلوبہ معیار اور ٹیکنیکل فٹنس کے مطابق ہے۔ ہمارے ہاں متعلقہ محکمے گاڑیوں کے فٹنس کے سرٹیفکیٹ کس طرح جاری کرتے ہیں؟ ان کو کس طرح چیک کیا جاتاہے؟ کس طرح رشوت لے کر ناکارہ اور تھرڈ کلاس گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ دیئے جاتے ہیں؟ آپ موٹر وے اور جی ٹی روڈ پر سینکڑوں ایسی گاڑیاں، ٹرک اور آئل ٹینکر دیکھ سکتے ہیں جواگر امریکہ میں ہوتے تو وہ کب کے بند کر چکے ہوتے۔ مگر ہمارے ہاں 1970ء کے ٹرک اور بسیں بھی نظر آئیں گی۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کتنا عجیب اور افسوسناک بیان دیا ہے کہ اتنے بڑے سانحے سے حکومت تنہا نہیں نمٹ سکتی۔ ارے بھائی صرف 180لوگوں کے جلنے پر حکومت نے ہاتھ کھڑے کردیئے ۔ اللہ نہ کرے اگر اس سے بڑا حادثہ ہوگیا تو کیا دوسرے ممالک سے لوگوں کو بلائیں گے؟ذرا سی بھی کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے آپ فوج کو بلا لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ محکمہ صحت کے ترقیاتی کاموں کا دعویٰ جو ہر وقت چھوٹے میاں صاحب کرتے رہتے ہیںوہ اقدامات اور ترقیاتی کام کہاں ہیں؟محکمہ صحت میں بھاری بھاری تنخواہوں پر آپ نے وہ مشیر رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی عملی زندگی میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ میاں صاحب صلہ ضرور دیں اپنے ساتھ وفا داری کا مگر یہ صلہ عوام کی صحت اور اسپتالوں کی سہو لتوں کی قیمت پر نہ دیں۔محکمہ صحت کی بہتری کیلئے جو اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ محکمہ صحت میں انگریزی میں خوبصورت پریذنٹیشن تیار کرنے والی خواتین اور مشیروں سے پوچھیں کہ پچھلے کئی برس سے وہ بھاری بھاری تنخواہیں لے کر موجیں مار رہے ہیں انہوں نے کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے؟ جنوبی پنجاب میں برن یونٹ کی کمی ہے یہ بات تو آپ کی وزیرمملکت خود کہہ رہی ہیں۔
رانا ثناء اللہ کن ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں گے؟ کیا جنہوں نے برن یونٹ نہیں بنائے؟ یا جنہوں نے ناقص گاڑیوں کو منٹیننس کے سرٹیفکیٹ دیئے؟ یا جو لوگ پٹرول لوٹنے کے لئے آئے تھے اور مر گئے اور اب ان کے گھرانوں کے خلاف کارروائی کریں گے؟ یا زخمیوں کے خلاف۔ ہمارے ایک دوست نے اس بڑے سانحے پر بھی حکومت کی تعریف شروع کردی، ارے بھائی برن یونٹ کے لئے بڑے جدید بستر درکار ہوتے ہیں جو انفیکیشن کنٹرول کرتےہیں۔ وہ بستر کتنے ہیں آپ کے پاس؟ کتنے پلاسٹک سرجنز ہیں؟ ذرا اس کا بھی جائزہ لے لیں۔
70برس میں ہم اعضا کی پیوند کاری اور عطیے کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کرسکے ان زخمیوں اور جلے ہوئے لوگوں کے لئے امریکی ریاست اوہایو سے جلد کا عطیہ لینا پڑ گیا ہے تاکہ سکن گرافٹنگ ہوسکے۔
پورے ملک میں مارکیٹوں کے اندر جس قسم کی بھی وائرنگ ہے اور جس قدر تنگ گلیاں ہیں اگر وہاں آگ لگ گئی تو کیا بنے گا؟ اب حکومت نے اخبارات میں اشتہار دیا ہے کہ ڈی جی ہیلتھ پنجاب کے لئے کوئی بندہ چاہئے،تنخواہ دس لاکھ روپے ہوگی۔ حیرت ہے! ڈی جی کے انڈر ڈائریکٹر 19گریڈ کا ہوگا، ڈپٹی ڈائریکٹر 18 گریڈ اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر 17 گریڈ ، وہ بلا پھر کیوں کام کریں گے؟پتہ نہیں کون حکومت کو الٹے سیدھے مشورے دے رہا ہے۔ ہمیشہ سے ڈی جی ہیلتھ اس فرد کو لگایا جاتا تھا جس نے کم از کم بیس پچیس برس تک محکمہ صحت کے مختلف دفاتر میں انتظامی عہدوں پر کام کیا ہو۔ اللہ جانے کس کو خوش کرنے کے لئے اور کسے یہاں لگانے کے لئے یہ کیا جا رہا ہے اور تو اور آئندہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری کے لئے پی ایچ ڈی اور عمر کی شرط بھی ختم۔ یعنی اب آپ بیوروکریٹس کو خوش کریں گے۔ میاں صاحب برا نہ منائیں، پھر آپ یونیورسٹیوں میں داخلے کی عمر کی شرط بھی ختم کر دیں اور کسی بھی ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین کسی بھی بیوروکریٹ کو لگا دیں۔ پھر کیوں پی ایچ ڈی کرانے کے لئے لوگوں کو باہر بھیجتے ہیں۔ اس پر آئندہ بات کریں گے۔

تازہ ترین