• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں متعدد مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ سربراہ ملک عدالت میں حاضر ہوئے۔ 1868ء میں امریکی صدر ’’اینڈریو جانسن‘‘ کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی صدر ’’رچرڈ نکسن‘‘ کو واٹر گیٹ اسکینڈل کے نتیجے میں اپنی مدت پوری کئے بغیر اقتدار چھوڑنا پڑا۔ یہ تو کوئی پرانی بات نہیں، ایک عشرے قبل جب بل کلنٹن امریکہ کے صدر تھے، ان پر جنسی زیادتی کا الزام لگا۔ مونیکا نے عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ 19دسمبر 1998ء میں مونیکا لیونسکی کیس میں ایوانِ نمائندگان میں بل کلنٹن کا مواخذہ کیا گیا۔ سپر پاور کا صدر ہونے کے باوجود ان پر کیس چلتا رہا۔ بعدازاں امریکی چیف جسٹس ’’ولیم رینکوئسٹ‘‘ کی سربراہی میں امریکی سینیٹ کی جیوری نے انہیں بری کیا۔ یورپی ممالک میں بھی حکومت کے اعلیٰ ترین افراد جرم کریں تو عام شہریوں کی طرح پکڑے جاتے ہیں۔ الزامات لگنے پر وہ عدالتوں کا سامنا کرتے نظر آتے ہیں۔ اسرائیل کا وزیراعظم ہو یا اٹلی کا ہر ایک اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دینے کے لئے عدالت گئے ہیں۔ اسرائیل کے صدر ’’موشے کسائو‘‘ سے جولائی 2007ء میں اور اسرائیلی وزیراعظم ’’ایہود اولمرٹ‘‘ سے ستمبر 2008ء میں استعفیٰ طلب کیا گیا۔ پھر عدالت میں حاضر ہوئے۔ اٹلی کے تین بار وزیراعظم رہنے والے ’’سیلویو برلسکونی‘‘ تو عدالتوں کے چکر پر چکر لگارہے ہیں۔ وہ عدالت جانے پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ الزامات کا خوشی خوشی دفاع کررہے ہیں۔ جولائی 2008ء میں سوڈان کے صدر ’’عمر البشیر‘‘ پر عالمی عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات عائد کئے گئے۔ پھر مارچ 2009ء میں عدالت نے طلب کرلیا۔ گویا عالمی سطح پر بھی کسی سربراہ مملکت کو استثنا نہیںہے۔
یہ تو ایک پہلو تھا، جبکہ دوسرا پہلو اسلامی ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہ ریاست مدینہ کے بعد مذہب کے نام پر قائم ہونے والی دوسری نظریاتی ریاست ہے۔ ہم قولاً وعملاً اپنے نبیؐ کے فرمان کے تابع ہیں۔ آپؐ نے انصاف سب کے لئے ایک جیسا ہونے کی تاکید کی تھی۔ ایک موقع پر فرمایا: ’’تم سے پہلے جو قومیں گزری ہیں، وہ اسی لئے تباہ وبرباد ہوئیں کہ کمتر درجے کے مجرموں کو تو سزا دیتے تھے اوراونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے، اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دوں۔‘‘ حضرت علیؓ کا قول ہے:’’کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ قرون اولیٰ میں امیروغریب، خواندہ وجاہل، عوام وخواص، محمود وایاز، رعایا اور بادشاہ انصاف اور قانون کے معاملے میں برابر ہوتے ہیں، حتیٰ کہ معصوم عن الخطا شخصیت جن کے بارے میں قرآن نے 25 پارے کی سورۂ فتح کی آیت نمبر تین میں اعلان کیا ہے آپ کے اگلے پچھلے تمام خطائیں معاف ہیں۔ اس کے باوجود آپﷺ نے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھا۔ ایک دفعہ مجمع عام سے مخاطب ہوکر فرمایا:’’اگر میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو وہ مجھ سے بدلہ لے لے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ حکومت میں تمام منتظمین کو جمع کرکے فرمایا: ’’ان میں سے اگر کسی سے کمی زیادتی ہوئی ہو تو وہ کھڑے ہوکر بتائے۔‘‘ مجمع میں سے ایک شخص اُٹھ کر کہا:’’آپ کے گورنر عمرو بن العاص نے مجھے ناروا طورپر سو کوڑے لگوائے ہیں۔‘‘ خلیفہ وقت نے کہا: ’’اُٹھو اور ان سے اپنا بدلہ لے لو۔‘‘ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں متعدد بار وقت کے چیف جسٹس جس کو قاضی القضاۃ کہا جاتا تھا، نے ریاست کے سربراہ کو عدالت میں طلب کرکے بازپرس کی۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ نے مدینہ منورہ میں مفسدین کی طرف سے اپنے اوپر لگنے والے 8الزامات کے عوام کی عدالت میں تسلی بخش جواب دئیے۔ حضرت علیؓ اپنے خلاف ایک یہودی کی طرف سے دائر کئے گئے دعوے کے بعد قاضی شریح کی عدالت میں بنفس نفیس پیش ہوئے۔ حضرت عمرؓ حضرت زید بن ثابتؓ کی عدالت میں حضرت ابی بن کعب کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمے میں حاضر ہوئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک سلطان محمد تغلق کے خلاف ایک ہندو نے عدالت میں دعویٰ کیا۔ قاضی نے سلطان کو عدالت میں طلب کرلیا۔ وہ بغیر کسی تاخیر قاضی کی عدالت میں جاپہنچا اور ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہوا۔ ابوجعفر عبداللہ منصور عباسی خلیفہ تھا۔ مدینہ میں چند شتربانوں نے خلیفہ کے بارے میں فریاد کردی تو قاضی محمد بن عمران نے خلیفہ کے لئے سمن بھجوایا، خلیفہ بغیر سیکورٹی کے قاضی کے سامنے پیش ہوا اور فیصلہ بھی خلیفہ منصور کے خلاف ہوا لیکن حکمرانِ وقت نے عدالت کی توہین نہیں کی، بلکہ قاضی کی اس جرات اور انصاف پر دس ہزار اشرفیاں دیں۔
سنہری روایات میں سے چند گوشے ہیں جو آپ کے سامنے پیش کئے ہیں، میرے سامنے حدیث پاک اور تاریخ کی مستند ترین کتابوں کا انبار ہے جن میں سیکڑوں مثالیں ایسی ہیں کہ ریاست کے سربراہ کو عدالت میں طلب کرنا نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے بلکہ یہ اسلامی مملکت اور منصفانہ اسلامی نظام کی اہم خصوصیت اور طرۂ امتیاز ہے۔ معاصر یورپی حکومتیں مسلمانوں کی اسی عمدہ روایت کو اپناکر ہی اپنے ممالک کو ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست کہلوانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ 15؍ جون کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف نےجے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر ایک اچھی مثال قائم کی ہے جس سے بدلتے پاکستان کا اشارہ ملتا ہے۔ وزیراعظم کی اس پیشی، تفتیش، سوال و جواب اور دستاویزات کی فراہمی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو تفتیشی ٹیم اور پاکستان کے آئینی ادارے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر منحصر ہے، لیکن وزیراعظم کی پیشی سے اب خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے کی ریت کا آغاز ہو گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں اس ملک میں اس سے قبل کس کا احتساب ہوا ہے؟ کس نے خود کو قانون کے سامنے سرینڈر کیا ہے؟ بلکہ حمود الرحمان کمیشن کی تحقیقات کے باوجود آج تک یہ رپورٹ پبلک نہ کی جاسکی۔ کارگل جنگ کا ذمہ دار کون تھا قوم کو آج تک پتہ نہ چل سکا۔مزید آگے چلیں! ایبٹ آباد میں ملکی سلامتی کے بخیے ادھیڑ کر آپریشن لانچ کر دیا گیا، مگر قوم آج تک حقیقت حال سے بے خبر ہے۔ میمو گیٹ ہوا مگر مجرم کٹہرے میں نہ لائے جا سکے۔ این آر او کے ذریعے چار ہزار سے زائد لوگوں کا کالا دھن معاف ہوا، مگر کوئی حساب نہ لے سکا۔ کسی کک بیک اور لوٹ کھسوٹ کا سراغ مل سکا۔ یہ پتہ چل جانے کے باوجود کہ کراچی میں سالانہ 230ارب روپے بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں، مگر یہ کس مافیا کی جیب میں جاتے ہیں۔ کون مجرم ہے؟ کسی سے اس کا احتساب نہ ہو سکا۔ 460 ارب کی کرپشن کا مدعا ڈاکٹر عاصم حسین کے سر ڈالا گیا مگر19ماہ کی تفتیش سے ایک دھیلا برآمد نہیںکرایا جا سکا۔ آج وہ ایک پائی ادا کئے بغیر آزاد فضائوں میں سانس لے رہا ہے۔ ایان علی سے پانچ لاکھ امریکی ڈالر برآمد ہو گئے مگر واضح ثبوت کے باوجود اسے دبئی فرار کروا دیاگیا۔ کون نہیں جانتا کہ کون کرپٹ ہے کون نہیںمگر ہے کوئی جو اِن سے جواب مانگ سکے۔ ہے کوئی جس نے خود کو اس ملک کا مجرم تصور کرتے ہوئے قانون کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوں، نہیں، ہر گز نہیں۔ آف شور کاروبار کا الزام صرف شریف فیملی پر نہیں۔ اس ملک کی 430شخصیات اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان سب کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔

تازہ ترین