• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خبر یقیناً قابل تشویش ہے کہ سندھ میں جیل توڑنے سمیت بڑے حملوں کا خدشہ ہے۔ اس کا انکشاف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سینٹرل جیل کراچی سے فرار ہونے والے کالعدم تنظیم کے دو قیدیوں کے فرار کے بعد پیر کو ایک اجلاس میں کیا۔ انہوں نے کراچی میں دو قیدیوں کے فرار کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی جیل کو معطل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ دو قیدیوں کا فرار غیرمعمولی اور ناقابل برداشت ہے جو جیل کے عملے کی مدد کے بغیر ناممکن ہے۔ اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ کے استفسار پر بتایا گیا کہ اس واقعہ سے قبل جیل کا معائنہ بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ آئی جی جیل خانہ جات نے بتایا کہ محکمہ داخلہ کے ذریعے انہوں نے سینٹرل جیل میں سرچ آپریشن کا بھی حکم دیا جس کے دوران ثبوت جمع کرنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ ثبوت ختم کردیئے گئے ہیں۔ دو قیدیوں کے فرار کے بعد خدشہ یہ ہے کہ کالعدم تنظیمیں اپنے قیدیوں کو چھڑانے کیلئے حملے کریں گی ۔ اجلاس کی کارروائی سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں اس صورتحال سے بچنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی یا بندوبست نہیں ہے۔ اس وقت صوبے میں 20ہزار قیدیوں کیلئے تین ہزار سے کم نفری دستیاب ہے جبکہ کم از کم پانچ ہزار نفری ضرورت ہے قیدیوں کی عدالت میں پیشی کی ذمہ داری کورٹ پولیس کے بجائے جیل پولیس کے سپرد کردی گئی ہے۔ پولیس کی نفری میں شدید کمی اس لئے بھی تشویش کا باعث ہے کہ دہشت گردی کے خطرات کے باعث حال ہی میں محکمہ داخلہ کی ہدایت پر ایک سو سے زائد پیٹرول ٹینکروں کو کراچی کے رہائشی علاقوں میں جانے سے روک دیا گیا ہے اس لئے کہ یہ ٹینکرز بغیر پولیس سیکورٹی اور حفاظتی اقدامات کے ان علاقوں سے گزرا کرتے تھے۔ یہ صورتحال صرف سندھ کی حد تک نہیں ہے ملک کے دوسرے صوبوں سے بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس باب میں ٹھوس حکمت عملی وضح کی پولیس کی نفری میں اضافہ کیا جائے اور انٹیلی جنس کا موثر نظام قائم کیا جائے۔

تازہ ترین