• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریمنڈ ڈیوس کا نام پاکستانیوں کیلئے کوئی نیا نہیں، یہ وہ بدنام زمانہ امریکی جاسوس ہے جس نے 27 جنوری 2011ء کی صبح لاہور کی ایک شاہراہ پر موٹر سائیکل سوار دو نوجوانوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا اور بعد ازاں اپنے کیمرے سے مرنے والے نوجوانوں کی تصویریں بنائیں۔ کچھ دیر بعد امریکی قونصل خانے کی ایک گاڑی اپنے جاسوس کو ریسکیو کرنے کیلئے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیز رفتاری سے جائے مقام پر آرہی تھی کہ اِس کی زد میں آکر ایک اور نوجوان جاں بحق ہوگیا، اِس طرح ریمنڈ ڈیوس کو ریسکیو کرنے کا امریکی قونصلیٹ کا مشن فیل ہوگیا اور ریمنڈ کو گرفتار کرلیا گیا۔ واقعہ کے 11 روز بعد جاں بحق ہونے والے ایک نوجوان کی بیوہ شمائلہ نے صدمے میں خود کشی کرلی جس کے مرنے سے قبل آخری الفاظ یہ تھے۔ ’’مجھے انصاف چاہئے، شوہر کے قاتل سے خون کا بدلہ لیا جائے۔‘‘ اس طرح ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے چار زندگیوں کے چراغ گل ہوگئے اور اس واقعہ پر پوری پاکستانی قوم سراپا احتجاج بن گئی جن کا مطالبہ تھا کہ پاکستانیوں کے قاتل امریکی جاسوس کوسزائے موت دی جائے۔
پاکستان میں اُس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ آصف زرداری صدر مملکت، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور حسین حقانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ واقعہ کے بعد امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے جاسوس کو بچانے کیلئے اُسے سفارتکار قرار دیا اور کہا کہ ریمنڈ کو ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔ بعد ازاں امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے زرداری اور گیلانی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر دبائو ڈالا کہ دفتر خارجہ، ریمنڈ ڈیوس کو سفارتکار ظاہر کرکے استثنیٰ کا حقدار قرار دے مگر شاہ محمود قریشی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا اور یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے کہ ’’ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں۔‘‘ موجودہ صورتحال کے باعث پاکستان اور امریکہ کے مابین سفارتی بحران پیدا ہوا اور دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے تاہم واقعہ کے 49 روز بعد 16 مارچ 2011ء کو پاکستانی قوم کو اُس وقت اچانک شدید حیرانی سے دوچار ہونا پڑا جب اُنہیں یہ علم ہوا کہ 4 پاکستانیوں کے قاتل امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قائم خصوصی عدالت نے 24 کروڑ روپے کی دیت کے عوض رہا کردیا اور بعد میں اُسے لاہور ایئرپورٹ سے ایک سیسنا طیارے کے ذریعے افغانستان میں قائم امریکی بیس پہنچادیا گیا۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر قوم حیران تھی کہ پاکستانیوں کے قاتل اور امریکی جاسوس کو حکومت نے کس طرح اتنی آسانی سے رہا کردیا؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوم نے اِس اندوہناک واقعہ کو فراموش کردیا مگر گزشتہ دنوں یہ واقعہ اُس وقت ایک بار پھر عالمی میڈیا کی زینت بنا جب ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ’’دی کنٹریکٹر(The Contractor)‘‘ منظر عام پر آئی۔ کتاب میں امریکی جاسوس نے پاکستان میں اپنی گرفتاری سے لے کر رہائی تک کے سنسنی خیز انکشافات اور داستانیں بیان کی ہیں۔ ریمنڈ نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ اُسے کوٹ لکھپت جیل سے رہا کروانے میں جان کیری، آصف زرداری، حسین حقانی اور جنرل پاشا نے اہم کردار ادا کیا۔ ریمنڈ کے بقول اُس کی گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی جب امریکی حکام کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم ہوچکا تھا اور امریکہ نے ایبٹ آباد آپریشن کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن امریکہ کو یہ خدشہ تھا کہ اگر اسامہ کے خلاف آپریشن ہوا اور اس دوران ریمنڈ پاکستان کی حراست میں رہا تو اُسے مار دیا جائے گا۔ ریمنڈ کے بقول یہ معاملہ اِس حد تک اہمیت اختیار کرگیا تھا کہ امریکی سینیٹر جان کیری نے پاکستان کا دورہ کرکے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں جنہوں نے امریکی سینیٹر کو ریمنڈ کی رہائی کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ بعد ازاں 23 فروری 2011ء کو پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور امریکی فوجی کمانڈر جنرل مائیک مولن کے درمیان اومان میں خفیہ ملاقات ہوئی جس میں یہ طے کیا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کس طرح عمل میں لائی جائے۔ کتاب میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ریمنڈ کے خلاف قائم کئے گئے مقدمے کو شرعی بنیادوں پر ختم کرنے میں جنرل پاشا پیش پیش رہے اور ان کا مقتولین کے لواحقین پر دبائو تھا کہ وہ خون بہا قبول کرلیں۔ ریمنڈ کے بقول اُس کی رہائی کے وقت بھی جنرل پاشا عدالت میں موجود تھے اور بذریعہ فون امریکی سفیر کیمرون منٹر کو اپ ڈیٹ کررہے تھے، جنرل پاشا کی پوری کوشش تھی کہ یہ معاملہ جلد از جلد کسی طرح نمٹ جائے کیونکہ کچھ ہی دنوں بعد 18 مارچ 2011ء کو وہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے تھے لیکن جب یہ معاملہ نمٹ گیا تو جنرل پاشا کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کردی گئی۔ رہائی کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ریمنڈ کی رہائی کے عوض دیت کی 24 لاکھ ڈالر کی رقم امریکہ نے نہیں دی، اطلاعات ہیں کہ دیت کی یہ رقم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سرکاری خزانے سے ادا کئے۔
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں کئے گئے انکشافات نے پاکستان میں نئی بحث کا آغاز کردیا ہے اور ان انکشافات سے کچھ ایسے چہرے بھی بے نقاب ہوگئے ہیں جو ابھی تک عوام کی نظروں سے اوجھل تھے۔ یہ کتاب 4 پاکستانیوں کے قاتل امریکی جاسوس کے فرار میں پاکستان کی قیادت کے کردار کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب اس طرح کی کوئی کتاب دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بنی ہو بلکہ کچھ عرصہ قبل ایبٹ آباد آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی سیل کی ایک کتاب شائع ہوچکی ہے جو پاکستان اور اداروں کی بدنامی و تضحیک کا سبب بن رہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریمنڈ کی رہائی کے معاملے میں ہماری سیاسی و عسکری قیادت امریکی دبائو برداشت نہیں کرسکی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریمنڈ سفارتکار نہیں بلکہ امریکی جاسوس اور قاتل ہے مگر پھر بھی امریکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اُسے رہا کردیا گیا۔ بہتر ہے کہ کتاب میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملے میں جن شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ سامنے آکر اپنی پوزیشن واضح کریں بصورت دیگر یہ انکشافات نہ صرف اُن شخصیات بلکہ اداروں کیلئے شرمندگی کا سبب بھی بنیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اگر اپنے کسی ایجنٹ یا جاسوس کو بچانا چاہے تو کسی حالت میں بھی بچاسکتا ہے جیسا کہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ہوا۔ پاکستان میں قید امریکی ایجنٹ شکیل آفریدی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا ’’ہیرو‘‘ قرار دے چکے ہیں اور انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ شکیل آفریدی کو دو منٹ میں رہا کرواسکتے ہیں۔ ریمنڈ کی کتاب پڑھنے کے بعد یہ بات خارج از امکان نہیں کہ کل امریکی دبائو میں آکر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کردیا جائے اور بعد میں وہ بھی اِسی طرح کی کوئی کتاب لکھے جو پاکستان اور اداروں کی بدنامی کا سبب بنے۔

تازہ ترین