• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس سرکس، وطن عزیز کی چولیں ہلا چکا ۔ اللہ سے ایک ہی دعا،اب انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ آئین اور قانون پر ایسے عمل ہو کہ مچھلی پکڑ نے (Witch Hunting) کا تاثر زائل ہو جائے۔حیلے بہانے نظام کوآڑے ہاتھوں لینے کی افواہیں بھی دم توڑ جائیں۔
ملکی سیاسی ارتعاش ،قومی انتشار میں ڈھل چکا۔ ایک عرصے سے لکھ رہا ہوں کہ دشمنان وطن ، سر زمین پاکستان پر قبضہ کرنے سے زیادہ افراتفری،انارکی،خانہ جنگی، سیاسی ابتری میں منہمک ہیں۔ خاکم بدہن، ادھر وطن عزیز کامل انتشار کی بھینٹ چڑھا،ادھر ملک کے اہم مقامات اور تنصیبات پر دشمن کے قبضہ و تصرف کے امکانات روشن۔ نتیجتاًحقیقی دوست ،جو حلاوت میں شہد ، ہمالیہ پہاڑ جیسا سایہ اور اخلاص کا سمندر ، ہمارے کارن بے دست وپا ، عضو معطل بن کے رہ جائیگا۔ اقتصادی راہداری چین کی بھی زندگی اور موت کامعاملہ ہے۔ اسی ہی میں تو رخنے ڈالنے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ یمن، افغانستان، عراق، لیبیا ،مصر ،شام میں انارکی ، سیاسی افراتفری اور انتشار عام رکھنے کا آزمودہ فارمولا ایران، پاکستان، ترکی اور خلیجی ممالک پر نافذ العمل ہوا چاہتا ہے۔ تگ و دو جاری ہے ۔
جوانی کی دہلیز پر، پاکستان 1971کو دو لخت ہوتے دیکھا ۔ ماضی میں جھا نکتا ہوں، سوچوںمیں غرقاب، سوالیہ شکوہ جکڑے ہے۔ پاکستان کا دانشمند طبقہ، سیاستدان، افواج پاکستان، عدالتی نظام، دانشور ان ملت میں معدودے چندبھی نہ تھے جو حالات کی اندو ہناکی کا تعین کرپاتے، ’’ اور پھرپاکستان ٹوٹ گیا ۔‘‘ منظم بحث ہوئی نہ عارفا نہ غور و فکر، آنے والی ہولنا کیوں کا سد باب کیسے ہوتا ۔ اُسی طرز پر آج بھی وطن عزیز کی چولیں ہلائی جا رہی ہیں۔ ’’پاکستان جلد ناکام ریاست بننے کو‘‘، 70سال سے سن سن کر کان پک گئے ہیں ۔دشمنان وطن پرانا ایجنڈا لئے پھر سے نئے عزم کے ساتھ میدان عمل میں ہیں۔
نظریاتی ریاست اللہ اور رسولﷺ کے نام پر ملی۔ 27رمضان المبارک، جمعۃ الوداع کا دن انگریز نے نہیں، اللہ نے مقرر کیا، حفاظت رہنی ہی تھی۔ ہر بحران کے بعد پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرا۔ دُنیا کی ساتویں نیو کلیئر پاور اور طاقتور فوج نے وطن عزیز کو ناقابل تسخیر بنارکھا ہے۔
افواج پاکستان، نامساعد حالات کے باوجود دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا ئے رکھے ۔ الحمد للہ پاکستان کا آج کل سے بہتر ہے۔ جبکہ افواج پاکستان اور ریاست لازم و ملزوم بن چکی ہیں ۔ فوج کے بغیر ریاست دشمن کا ترنوالا جبکہ ریاست افواج کا وجہ وجود۔
جب یہ سب کچھ اٹل حقیقت تو روز اول سے ریاست اور عسکری قیادت باہم متصادم کیوں ؟اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو ماضی کی پاکستانی عدلیہ نے پروان کیوں چڑھایا ؟دبائو اور مفادات کو ترجیح کیوں ملی؟ جسٹس نسیم حسن شاہ، (حسن اتفاق، جسٹس طارق کھوسہ کے سسر)کا برملا اعتراف کہ ’’بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل تھا،عدلیہ پر’’دبائو‘‘تھا ‘‘۔جب جسٹس نسیم حسن شاہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلہ پر دستخط کر رہے ہونگے، یقیناً وقت کے تقاضوں نے اُنکے ضمیرکو مطمئن کررکھا ہو گا۔ کہ اُس وقت کے ’’مافیا ڈان ‘‘ یا ’’گاڈ فادر‘‘ کو ٹھکانے لگانا ضروری تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے موثر حصہ برابر ڈالا۔ بعد از خرابی بسیار، ازالہ کیسے ہو سکتاتھا؟
پاناما لیکس کے اوپر سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184(3)کے تحت مقدمے کی کارروائی نے سیاسی جماعتوں میں تنائو کئی گنا بڑھا دیا ہے ۔ سب سے زیادہ پریشانی کہ، وطن عزیز سیاسی انتشار اور باہمی تصادم کو گود لے چکا۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی لڑائی، 1970کا ماحول بلکہ 70کی د ہائی کی دُہائی دے رہی ہے۔ وطن عزیز کو پھر سے گھیر چکی ہے۔ ابھی آنے والے کچھ دونوں میں فریقین کی عزتوں، مرتبوں، مقاموںنے مزید پامال ہونا ہے۔ باہمی وجود کو برباد کرنے کا ہر ہتھیار استعمال میںآنے کو ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کہ سپر یم کورٹ دوران کارروائی، کچھ ایسے رہنما اصول وضع کر پاتی، جو دونوں سیاسی پاریٹوں میں تنائو کم کر جاتا۔ جوں جوں کارروائی بڑھی، توں توں لڑائی آسمان کو چھونے لگی ۔آج’’ لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ اورایک کی دم ‘‘۔ ریاست کے ازلی دشمن موقع کی تلاش میں، انتشار کو اپنانے بڑھانے میں دن دگنا رات چوگنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ قومی بدقسمتی کہ پارلیمنٹ، عدلیہ، افواج جیسے اداروں کی ساکھ متا ثر ہو رہی ہے۔واقعات کے تسلسل کا جائزہ لیں تو بہت کچھ عیاں رہے گا۔ رجسٹرارنے پٹیشن کو لغو قرار دیا۔ عمران خان کا عدالتوں کے خلاف جارحانہ رویہ رہا ۔ پٹیشن سماعت کے لئے منظور ہوئی عمران خان کا جلسہ عام میں برملا اظہار کہ ’’بوجہ عوامی دبائو سپریم کورٹ سننے پر مجبور ہوئی‘‘ تادیبی کارروائی ہوجاتی بہتر تھا۔ اسلام آباد لاک ڈائون کی گیدڑ بھبکی کی آڑ میں اداروں کو دبائو میں لانے کی ناپاک جسارت پر پکڑکا نہ ہونا، حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔ عمران خان کو اداروں کی تضحیک کا لائسنس جاری نہ رہتا تو اور ن لیگ والے بھی اداروں کی تضحیک میں اپنے آپے سے باہر نہ آتے۔
سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کے کچھ ایسے ریمارکس ’’ 62/63کے اطلاق پر پوری پارلیمنٹ نااہل ہوجائے گی ‘‘ بعد ازاں حذف کرانے پڑے۔ کمیشن بنانے پر فریقین کی رضامندی لینا، فیصلے میں ماریو پو ز و کے ناول کے کردار گاڈ فادر سے موجود حکمرانوں کی مماثلت رکھنا، یقین جانیے سنجیدہ حلقوں کی طبیعت پرگراں گزرا ۔جبکہ مخالفین کی زباں طراری کا حصہ بنا۔ فیصلوں سے ہرگز ایسا تاثر نہیں جاناچاہئے کہ ذات، جذبات، غصہ یا زیادتی کا عنصر آماجگاہ بنا چکا ۔دوران جنگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے منہ پر دشمن نے تھوکا تو آپ نے تلوار پھینک دی کہ اب ’’ معاملہ ذاتی غصہ کو جگہ دے گیا ہے۔‘‘
ریمارکس کہ ’’فیصلہ بیسوں سال یاد رکھا جائے گا‘‘، دھڑکا لگنا تھا ۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بیسوں سال یاد رکھے جانے والے اکثرفیصلوں پر جمہوریت شرمسار ہے۔ بیسوں سال سے فقط وہی فیصلے ازبر ہیں جہاں آئین سے ماورااورقانون سے تجاوز رہا۔ نظر یہ ضرورت نے ایسے فیصلوں کی کوکھ سے جنم لیا۔
مولوی تمیز الدین، دوسو، نصرت بھٹو، جونیجو، وغیرہ جتنے بھی ایسے کیسز، دہائیوں سے آج بھی سر چڑھ کر بول رہے ہیں ۔ ایسے فیصلوں نے ر یاست کو ہلکان کر رکھا ہے۔ آمرانہ بغاوتوں کی حوصلہ افزائی رہی ۔ مورخ رقم کر نے پر مجبو رکہ جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان ایسے فیصلوں نے پہنچایا۔ مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کے بد نام زمانہ ’’نظریہ ضرورت ‘‘نے طاقتور کو غاصبانہ قبضہ اور تجاوز کا لائسنس فراہم کیا۔ جسٹس منیر کا فیصلہ نہ صرف بیسوں سال یاد رکھا گیا، دوسرے کئی کیسز دو سو، نصرت بھٹو، جونیجو،ظفر علی شاہ وغیرہ بے شمار مقدمات کی نظیر بنا ۔ فیصلے بمطابق آئین اور قانون ہمیشہ کے لئے کتابوں میں محفوظ، بڑا نام نہ کماسکے ۔ آج جب موجودہ تحقیقاتی کمیٹی بارے نادیدہ طاقتوں کے اثر و رسوخ کا چرچا ہوتا ہے تو ’’دودھ کے جلے‘‘کو چھاچھ سے خوف آتا ہے۔ JITکے ارکان کی بھرتی کا طریقہ کار، ارکا ن کی اجزائے ترکیبی و بناوٹ، واٹس ایپ سے لے کر حرکات و سکنات، پوائنٹ اسکورنگ ، تحقیق و تفتیش کا طریقہ تضحیک اور پبلک امیج کو خراب کرنے میں دلچسپی انصاف کے اصولوں کی نفی کر چکا ہے۔JITمتنازع بن چکی ہے۔
معلوم نہیں کہ Recommendationsاو ر معروضات کیا ہو نگی؟ JITمالی بے ضابطگیوں میں شریف فیملی کو بری الذمہ ٹھہرائے گی یا ذمہ دار جانے گی ۔ ٹھوس ثبوت بنیاد بن پائیں گے یا قیاس، گمان، ماریو پوزو کے کردار ’’گاڈ فادر‘‘یا سسلی کے مافیا کی ورکنگ کو سامنے رکھ کر رپورٹ تیار ہو گی؟ خاطر جمع متحارب فریقین میں سے ایک انکاری رہے گا ۔مبارک ہو! قوم منقسم ہو چکی۔ JITاپنے حتمی معر وضات سے پہلے ہی اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہے۔ ذمہ دار، JITبقلم خود۔
گزارش سعی لاحاصل و بیکار، اگر سانحہ مشرقی پاکستان اور چار مارشل لائوں سے سبق نہیں سیکھا، یہ کالم بھی جائے گا بھاڑ میں ۔ خطہ ارضی سیاست کے اتار چڑھائو دیکھنے کی اہلیت نہیں تو اس بندہ ناچیز کا توجہ دلائو نوٹس کس کام کا ؟ نجانے ہر بار آسمانوں کی طرف پرواز وطن کو نظر کیوں لگ جاتی ہے۔یا اللہ !وطن عزیز کو نظر بد سے بچا۔(آمین)

تازہ ترین