• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ٹرمپ نے ابھی اپنی صدارت کے چھ ماہ بھی پورے نہیں کئے مگر انہوں نے ایشیا میں اپنے ہی امریکی اتحادیوں کو اربوں ڈالرز کا اسلحہ قیمتاً فروخت کرکے امریکی اسلحہ کے ڈھیر لگانے کا سامان کردیا ہے۔ امریکہ میں اسلحہ اور ہتھیاروں کی انڈسٹری بے حد خوش اور مصروف ہوگئی ہے لیکن ایشیا کے مختلف علاقوں میں جنگجویانہ ذہنیت اور ماحول کو فروغ ملنے لگا ہے۔ 2ارب ڈالرز سے زائد کے اسلحہ کی ڈیل تائیوان سے بھی کر لی گئی جبکہ ایک عرصہ سے امریکہ تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ختم کرچکا ہے اور چین کوتسلیم کرتا ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر مون جائی ان بھارتی وزیراعظم کے دورہ واشنگٹن کے فوراً بعد جون کے آخری دنو ںمیں آئے اور شمالی کوریا کے خلاف صدر ٹرمپ کی گارنٹی کے ساتھ ساتھ اسلحہ کی خریداری کے مذاکرات بھی مکمل کرگئے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی صرف دو روز کے لئے واشنگٹن آئے۔ صدر ٹرمپ سے 20منٹ کی تنہائی کی ملاقات میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے علاوہ وہ صدر ٹرمپ سے مراعات، انٹیلی جنس معلومات کی شیئرنگ، افغانستان کی صورتحال، جدید ٹیکنالوجی اور اسلحہ سازی میں مزید تعاون پر ذرائع کے مطابق زور دیتے رہے۔ پھر 40منٹ کے دونوں ملکوں کے وفود کے ساتھ مذاکرات میں نریندر مودی اور ٹرمپ موجود رہے۔ وہائٹ ہائوس میں ورکنگ ڈنر کے دوران بھی بڑی تفصیلی مذاکرات اور اشتراک کے مختلف پہلوئوں پر بات ہوئی۔ لیکن بالآخر بھارت بھی 22گارڈین ڈرونز قیمتاً خرید کر اور مزید جدید اسلحہ خریدنے کے مذاکرات کرکے لوٹا۔ یہ ڈرونز جاسوسی کرنے کے موثر اور اعلیٰ ترین جدید ہتھیار ہیں۔ پاکستان تو 15سال تک امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قربانیاں دیتا رہا ہے لیکن بھارت نے دہشت گردی کے خلاف ایک بھی گولی نہیں چلائی مگر افغانستان میں 12سال کی جنگ کے تمام نفع بخش ثمرات سمیٹ رہا ہے اور پاکستان پر اب بھی ’’ڈومور‘‘ مزیدالزامات، امریکی بے اعتنائی اور بھارت دشمنی کا دبائو ہے۔ اس کا ایک اہم سبب خود ہمارے ماضی کے حکمرانوں کے جلدی دبائو اور غیروں کی خوشامد کے لئے کئے جانے والے فیصلے اور اقدامات ہیں۔ اب تو اسلام آباد نے بھی نریندر مودی کے دورۂ واشنگٹن پر ردعمل کا اظہار کرکے اس امر کی تصدیق کردی ہے۔ نریندر مودی کے دورہ امریکہ کا مقصد چین کا ہوا بیان کرکے دراصل پاکستان کے خلاف جنگی، جاسوسی اور تخریبی کارروائیوں کے بارے میں امریکہ سے گرین سگنل حاصل کرنا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف اپنے واویلے کی آڑ میں وہ پاکستانی سرزمین پراپنی کارروائیوں کو تسلسل دینا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں جزوی طور پر کامیاب بھی لوٹے ہیں۔ تحریک کشمیر کے صلاح الدین (یوسف شاہ) نے امریکہ کے خلاف کوئی دہشت گردی نہیں کی لہٰذا امریکی قانون کے تحت امریکہ کو اسے دہشتگرد قرار نہیں دینا چاہئے لیکن صدر ٹرمپ نے ’’جپھی‘‘ ڈالنے والے نریندر مودی کو خوش کرنے کے لئے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حوصلہ شکنی کے لئے صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیدیا۔ جب ہیلری کلنٹن وزیرخارجہ تھیں تو بھارت کے دورے پر جس روز وہ نئی دہلی اتریں۔ اسی روز امریکہ میں کشمیریوں کی تحریک کے ممتاز رہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی کو اپنی تنظیم کو امریکی قانون کے تحت رجسٹر نہ کرانے اور آئی ایس آئی سے مدد لینے کے الزامات میں گرفتار کرکے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو امریکہ میں ختم کرنےکی بھرپور کوشش کی گئی جو بھارتی حکومت کے لئے ایک ’’گفٹ‘‘ تھا۔ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو پانامہ، آنے والے الیکشن، اقتدار کی دوڑ، شعلہ بیانی سے ہی فرصت نہیں کہ وہ چاروں طرف مخالفانہ ماحول میں گھرے ہوئے پاکستان کی سرحدوں، سلامتی کے تقاضوں اور خطے میں بارود کی بو سونگھ کر پہلے ملک کی سلامتی کو مقدم سمجھ کر ملک بچائیں اور پھر اقتدار کے خواب کی تعبیر تلاش کریں۔
بہرحال صدر ٹرمپ سے نریندر مودی امیگریشن اور دو طرفہ تجارت کے امور پر تو کوئی رعایت حاصل نہیں کرسکے کیونکہ ٹرمپ کھل کر اس حکمت عملی پر زور دے رہے ہیں کہ بھارت، جنوبی کوریا اور ایسے ممالک جن کا توازن تجارت ان کے اپنے حق میں ہے اور امریکہ کے خلاف ہے وہ پہلے امریکہ سے مزید اشیا امپورٹ کرکے ٹریڈ کے بیلنس کو متوازن کریں۔ اسی طرح ہر سال 70ہزار بھارتیوں کو HI-Bویزا پر امریکہ آنے کی تعداد میں جو کمی کردی گئی ہے نریندر مودی اس کو بحال نہ کرواسکے بلکہ یہ مسئلہ ہی نہیں اٹھا سکے۔ قبل ازیں امریکی وزیردفاع جنرل (ر) جیمز میٹس اور امریکی وزیرخارجہ ٹلرسن علیحدہ علیحدہ نریندر مودی سے ملاقات کرکے اپنے اپنے شعبے کے متعلقہ امور پر بھارت سے اپنی امریکی توقعات اور بھارتی مطالبات کے بارے میں گفتگو ٹرمپ مودی ملاقات کیلئے ماحول کو ہموار کرچکے تھے۔ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں یہ خوش فہمی بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے ابھی تک اپنی پالیسی پر نظر ثانی کررہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستانی شہری صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینا مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آزادی کی زبردست لہر کے بارے میں خاموشی اور لاتعلقی، وادی میں کشمیریوں پر سنگدلانہ مظالم ا ور بھارتی فوج کا استعمال، کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے غیراعلانیہ جنگ کا تسلسل، پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ یہ سب واضح کررہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا میں اپنی پالیسی پر نظرثانی مکمل کرکے بھارت کی کھلی حمایت کا راستہ اختیار کرچکی ہے اور غالباً ہمیں ابھی یقین نہیں آیا یا ہمیں اس کا حل تلاش کرنے میں دقت ہورہی ہے۔ ہم ایک کلبھوشن کی گرفتاری اور اعتراف جاسوسی پر بڑے خوش ہیں۔ ایسے کئی بھارتی کلبھوشن ابھی تک پاکستان میں دہشت گردی، تخریب کاری اور تباہی کے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں ہمارے حکمرانوں نے تو ماضی میں پاکستان میں بھارتی تخریب کاری کو بھی جان بوجھ کر چھپایا اور دنیا کے سامنے نہیں لائے۔ مختصر یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دو روزہ واشنگٹن کے دورے کا مقصد پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر ری پبلکن حکومت کے سامنے پیش کرکے انسداد دہشت گردی کے نام پربھارت امریکہ خفیہ اور عوامی تعلقات کو مزید قریب لاکر پاکستان کے خلاف امریکی حمایت حاصل کرنا تھا۔ ایٹمی پاکستان کے بارے میں امریکہ محتاط ضرور ہے اور توازن رکھنا چاہتا ہے مگر بھارت امریکی اتحاد کو چین کے خلاف استعمال کرنے سے قبل چین کے حلیف پاکستان سے تاریخ کا قرض چکانے کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے کیونکہ چین سے تصادم بھارت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا اور بھارت چین سے تصادم کی بوگی محض امریکہ کو دکھا رہا ہے لیکن اس کا پہلا ٹارگٹ پاکستان ہے۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ اور اتحادیوں نے پولینڈ پر ہٹلر کے حملےپر ہٹلر کیلئے ’’خوشامدانہ پالیسی‘‘ اختیار کی تھی وہی ماحول اور کیفیت بھارت نے پاکستان کے بارے میں پیداکر رکھی ہے۔ مگر ایٹمی پاکستان کرکٹ کی طرح بھارتی تصادم کی صورت میں جوابی سرپرائز دے کر بھارت کے عالمی پاور بننے کے خواب کو بھی منتشر کرسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ ایشیا کے مختلف کونوں میں جدید اسلحہ خرید کر اور بناکر سعودی عرب سے لے کر جنوبی اور مشرقی ایشیا میں جو انبار لگائے جارہے ہیں آخرکار یہ اسلحہ امریکہ اور یورپ سے ہزاروں میل دور استعمال تو ہوگا۔ خدا خیر کرے۔ شام، عراق، یمن، فلسطین تو پہلے ہی تباہ ہوچکے ان کی تعمیر نو سے قبل ابھی مزید تباہی سے گزرنے کے آثار ہیں۔
بھارت کے نریندر مودی ، چین کے صدر اور جنوبی کوریا کے سربراہ اپنے دورۂ امریکہ کے دوران بعض ایسی علامات و افعال پاکستانی حکمرانوں اور معاشرہ کے لئے چھوڑ گئے ہیں جن پر پاکستانی سیاستدانوں حکمرانوں اور معاشرہ کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ (1) بھارت، چین اور جنوبی کوریا کے سربراہان نے پاکستانی حکمرانوں کی طرح امریکی صدر اور عوام پر اپنی انگریزی دانی کا کمال دکھانے کی بجائے وہائٹ ہائوس، امریکی میڈیا اور امریکی قائدین کے ساتھ مکمل طور پر ہندی، چینی اور کورین زبان میں گفتگو کی۔ ترجمہ کرنے والوں کا انتظام تھا اور ان حکمرانوں کی قومی زبان کا مکمل احترام تھا۔ صدر ٹرمپ اور امریکی لیڈروں سے مذاکرات میں نہ کوئی دقت ہوئی اور نہ ہی کوئی تعطل ہوا۔ اگر کام طویل ہوا تو وہ ٹرمپ انتظامیہ کا مسئلہ تھا۔ ان لیڈروں نے انتہائی موثر طریقے سے اپنا قومی مفاد اپنی قومی زبان میں بیان کیا۔ ہمارے حکمراں تو صرف انگریزی بولنے کے لئے اپنا مقصد، تشخص اور وقار تک قربان کردیتے ہیں۔ جب وزیراعظم یوسف گیلانی صدر بش کے دور میں امریکہ کے دورہ پر آئے تو مختلف خطابات بالخصوص صدر بش سے گفتگو اور فارن پالیسی ایسوسی ایشن واشنگٹن سے خطاب کے وقت جتنا منفی تاثر اور مزاحیہ ماحول پیدا ہوا وہ ایک ٹریجڈی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف صدر اوباما کے سامنے پرچی اور اس سے پہلے محمد خان جونیجو وزیراعظم نے اقوام متحدہ سے خطاب اچانک ملتوی کرکے صدر ریگن کی انگریزی اور انداز کے سامنے ہتھیار ڈالے اور کئی ایسے پاکستانی قائدین کے شوق انگریزی کے ذریعے خود کو ماہر اور جدید کہلوانے کے منظر ان آنکھوں نے دیکھے(2) نریندر مودی، چینی صدر شی جن پنگ اور جنوبی کوریا کے صدر اور صدر ٹرمپ نے دو طرفہ اختلافی مسائل کو ایک طرف رکھ کر اتفاق والے معاملات پر ڈیل کیا ہے جو عمدہ ڈپلومیسی ہے۔

تازہ ترین