• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہالینڈ کے ایک ممتاز سائنس دان ہنس لونت نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ اب اس ’’علم‘‘ کا ازسرنو جائزہ لیا جائے، ’’انسانی نوع کی اصلاح کا علم‘‘ کا مطلب ہے کہ جین Gene کے استعمال سے نسل انسانی کو بہتر بنایا جائے۔ سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس علم سے فائدہ اٹھاکر بہتر سے بہتر انسان تخلیق کرنے میں کوئی ہرج نہیں اور مستقبل میں لوگ ایسا کرنا چاہیں گے۔ اکیسویں صدی میں اس خیال کو گزشتہ صدی سے زیادہ قبولیت عام حاصل ہوئی ہے کہ جینیات کے ذریعے نسل کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور یہ کوئی پیچیدہ معاملہ یا قدرت کے کاموں میں مداخلت نہیں تاہم 1930ء کی دہائی میں ’’نسل انسانی کی اصلاح‘‘ کا آئیڈیا کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوسکا اور اس کی وجہ نازی جرمنی کو ٹھہرایا گیا۔ ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے یہ اعلان کردیا کہ کہ وہ اس علم کے ذریعے ایک اعلیٰ ترین انسانی نسل پیدا کریںگے اور انہیں اپنے ’’مقاصد‘‘ کیلئے استعمال کریں گے مگر آج برطانیہ کے نفسیات کے پروفیسر رچرڈلن نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ نسل انسانی کے اصلاح کے نظریے کو پھر سے دیکھنے اور ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے اس نے کہا ہے کہ طبیعاتی ٹیکنالوجی میں آج بے حد ترقی ہوچکی ہے اور بچے کی پیدائش سے قبل حاملہ خاتون کے رحم میں کسی بھی خرابی کی تشخیص اور اس کا مکمل علاج اس بات کی علامت ہے کہ انسانی اصلاح کے علم سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے رچرڈلن کا کہنا ہے کہ مذکورہ علم کی ٹیکنالوجی ضرور مقبول ہوگی کہ یہ نہ صرف انسانی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ والدین کیلئے بھی اطمینان بخش ہے۔ والدین کے اطمینان خوشی اور تسلی سے اولاد کی پرورش اور نشوونما پر بھی مثبت اثر پڑے گا اور نصف سے زیادہ بیماریوں یا خامیوں کا پیدائش سے قبل ہی سدباب کرلیا جائے گا کہ کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی ہونے والی اولاد امراض کا شکار ہو اب یقیناً مستقبل میںان کی یہ خواہش حرف بحرف پوری ہوجائے گی۔ والدین یہ بھی چاہیں گے کہ ان کے بچے نہ صرف صحت مند اور ذہین و فطین ہوں بلکہ جسمانی طور پر مضبوط اور طاقتور بھی ہوں لہٰذا یہ علم ان کی تمام خواہشات بخوبی پوری کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر رچرڈ کا خیال ہے کہ اگر آپ کسی فرد کی جینیاتی وضع میں تبدیلی لاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہ صرف اس فرد کی ہیئت ترکیب بدل رہے ہیں بلکہ اس کی آنے والی نسل کو بھی تبدیل کررہے ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہوگا دراصل وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ روز بروز ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کو دیکھا جائے تو مایوسی کیلئے انسانی زندگی میں کوئی جگہ یا مقام نہیں ہے کہ اب تو درازی عمر کا سبب بننے والی جینس کی دریافت بھی کرلی گئی ہے امریکی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جینس کے ایک ایسے گروپ کا پتہ لگالیا ہے جو کہ طویل عمر کا سبب ہے۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس کا مجلہ کے تازہ شمارے میں اس کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ میگزین لکھتا ہے کہ درازی عمر کا سبب وہ چند جینز ہیں جو کہ کروموسوم کے اردگرد ہوتے ہیں ان کی تعداد چار یا صرف ایک ہوسکتی ہے جبکہ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ انسانی خلیوں کے ضعیف ہونے کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہونے کے بعد ایسی دوائیں ایجاد ہوسکتی ہیں جو وہی کام کرسکتی ہیں جو درازی عمر کا سبب بننے والی جینز کرتی ہے۔ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے سائنس دانوں نے ایسے 137 بھائیوں اور بہنوں کے خلیوں کا تقابلی مطالعہ کیا ہے جنہوں نے غیر معمولی طور پر طویل عمر پائی تھی ان میں سے (ہر معاملہ میں) بھائیوں اور بہنوں میں سے ایک ایک نے 98یا اس سے زیادہ سال عمر پائی تھی ان میں سے بھائی کی عمر کم از کم93 اور بہن کی کم از کم 97 سال تھی درازی عمر کے ساتھ ساتھ کلون شدہ انسانی جین کی تیاری بھی زوروں پر ہے سائنس دانوں کے خیال کے مطابق 2020کے آخر یا 2021کے آغاز میں کلون شدہ انسان تیار کرلیا جائے گا اس سلسلے میں دو ملکوں کی خفیہ لیبارٹریوں میں کام ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں جرمنی نژاد امریکی سائنس دان یوٹسن پیناریوس نے انکشاف کیا ہے کہ ہماری تحقیق میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم جوڑے بھرپور تعاون کررہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ کلون شدہ انسانی جینز کے ذریعے لگ بھگ دو سو خواتین کو مائیں بنائیں گے یہ خواتین مکمل طور پر اس کام کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار کرچکی ہیں۔ واضح رہے یا یاد رہے کہ اس سے پیشتر اٹلی کے ایک سائنس دان نے گزشتہ سال جنوری میں اعلان کیا تھا کہ وہ کلوننگ کے ذریعے انسان پیدا کرنے کے ایک منصوبے پر کام کررہا ہے مگر اس کے اس منصوبے پر دنیا میں اچھی رائے قائم نہیں کی گئی تھی لیکن جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے کہ روز بروز ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرکر تو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ 1425ء میں کیمبرج یونیورسٹی کی لائبریری میں کل 122کتابیں تھیں جبکہ آج یہاں ایمسٹرڈم میں میری ذاتی لائبریری میں 1536 کتابیں ہیں۔
پابند مقدر ہو کر بھی ہر چیز پہ قادر ہے انساں
مجبور کا جب یہ عالم ہے مختار کا عالم کیا ہوگا؟

تازہ ترین