• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہائی غیر متوقع طور پر اس کی کنپٹی سے ٹکرانے والی پستول کی نال نے اس کے اوسان خطا کردیئے تھے یہ عید کا دوسرا دن تھا،رات کے نوہی بجے تھے نارتھ کراچی کایہ علاقہ بھی انتہائی پر رونق تھا،وہ اپنے رشتہ داروں سے عید مل کرگھر کی جانب روانہ ہونے کیلئے گاڑی ریورس ہی کررہا تھا کہ اچانک ایک موٹرسائیکل برابر میں آکر رکی جس سے پیچھے بیٹھا نوجوان تیزی سے اترا اوراس کی کنپٹی پر پستول تان لی، مسلسل گالی گلوچ کے ساتھ وہ موبائل فون، نقد رقم اوربیگم کے زیور طلب کررہا تھا اور میرا دوست اب اپنے حواس پر قابو پاکر اپنی بیوی کو شور مچانے سے باز رکھنے کی کوشش کررہا تھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ ڈاکوئوں کو شور مچا کر کوئی غلط حرکت کرنے کا موقع فراہم کرے کیونکہ اس کے ساتھ نہ صرف بیگم بلکہ تین بچے بھی پیچھے بیٹھے تھے جو شاید ابھی تک واقعہ کی نزاکت کو سمجھ نہیں سکے تھے، اس نے بیگم کو تمام زیوراور موبائل فون حوالے کرنے کا کہا، اس کی بیگم کے لئے زیور انتہائی اہمیت کا حامل تھا جو وہ کسی صورت ڈاکوئوں کے حوالے نہیں کرنا چاہ رہی تھی لیکن میرا دوست جو خود بھی سینئر صحافی تھا اور ہمیشہ ہی سب کو ڈاکوئوں کے سامنے مزاحمت کرنے سے منع کرتا تھا کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ جان سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے مال و زر تو پھر بھی آسکتے ہیں لیکن انسانی زندگی دوبارہ نہیں مل سکتی، اس نے ایک با ر پھر اپنی اہلیہ کو تمام زیور و موبائل ڈاکوئوں کے حوالے کرنے کا کہا، جبکہ خود بھی اس نے اپنی جیب میں موجود نقد رقم اور موبائل فون ڈاکو کے حوالے کردیا، چند لمحوں میں بیگم نے بھی اپنا زیور اور موبائل ڈاکو کے حوالے کردیئے ۔ ڈاکو اتنی آسانی سے سب کچھ مل جانے پر بہت زیادہ پر اعتماد ہوچکا تھا وہ گاڑی کا اگلا دروازہ کچھ اس طرح گھیر کر کھڑا تھا کہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی دوست یا رشتہ دار آپس میں بات چیت کررہے ہوں لہٰذا پاس ہی کھڑے درجنوں افراد نے اس جانب کوئی توجہ بھی نہیں دی کہ ان سے چند قدم دور ڈکیتی کی واردات جاری ہے، دو موبائل فون،زیور اور نقد رقم حاصل کرنے کے بعد ڈاکو نے میرے دوست سے اس کا بٹوہ بھی حوالے کرنے کا کہا،میرا دوست جو بٹوہ کبھی رکھتا ہی نہیں تھا یہ بات اس نے ڈاکو کو بھی بتادی کہ وہ بٹوہ نہیں رکھتا صرف نقد رقم ہوتی ہے جو وہ اپنی سامنے کی جیب میں رکھتا ہے تاہم ڈاکو یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا لہٰذا اپنی بات کو دہراتے ہوئے اس نے انتہائی زور دار طریقے سے پستول دوست کی کنپٹی سے لگادی،لیکن اب نہ چاہتے ہوئے بھی میرے دوست نے انتہائی تیز رفتاری سے ڈاکو کا پستو ل والا ہاتھ پکڑ کر نیچے کی جانب کرتے ہوئے شور مچا تے ہوئے لوگوں کو متوجہ کیا اسی شورکی وجہ سے تیزی سے لوگ گاڑی کی جانب آئےیہ دیکھ کر ڈاکو نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی جبکہ دوسرا ڈاکو موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے اپنے ساتھی کا انتظار کررہا تھا اور اسے جلدی بائیک پر بیٹھنے کی آوازیں لگا رہا تھا اسے اندازہ تھا کہ اگر یہ ڈاکو عوام کے ہاتھ چڑھ گئے تو زندگی بچانا بھی مشکل ہوسکتا ہے، ڈاکو نے ایک بار پھر اپنی پستول اور ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی اور ناکامی کی صورت میں اس نے پستول کا ٹریگر دبا دیا جس سے ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پستو ل کی گولی میرے دوست کی ٹانگ میں لگی جس سے خون کا فوارہ بلند ہوا اورڈاکو ہاتھ چھڑا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا،چند منٹوں میں سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے اور سب ہی واقعہ کی تفصیلات جاننا چاہ رہے تھے تاہم میرے دوست کی روتی ہوئی بیوی اور بلکتے ہوئے بچوں نے خدا کا واسطہ دیکر تماش بینوں سے پولیس کی ایمبولینس منگوانے کا کہا اور پھر کچھ دیر بعد ایمبولینس آئی اور اسے عباسی شہید اسپتال پہنچایا گیا،کیونکہ وہ ایک معروف چینل سے منسلک تھا لہٰذا یہ خبر چند لمحوں میں جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی،وزیر داخلہ نے بھی نوٹس لیا اور فوری طورپر ملزمان کو گرفتار کرنے کی ہدایات بھی جاری کردی گئیں، لیکن اسپتال میں صرف جاوید اقبال ہی ڈکیتی یا رہزنی کے نتیجے میں زخمی ہوکر نہیں پہنچا تھا بلکہ کئی اور معصوم شہر ی بھی ڈاکوئوں کی فائرنگ سے زخمی ہوکر اسی دوران اسپتال پہنچے تھے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام کسی جنگل کے رہائشی ہیں جہاں قانون نام کی کوئی شے موجود نہیں ۔رینجرز نے اپنی جانوں پر کھیل کر کراچی کے حالات ٹھیک کیے تھے لیکن سندھ حکومت نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت رینجرز کے اختیارات میں توسیع کو روک کر ان کے کام میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، پھر آئی جی سندھ کو سیاسی طاقت کے ذریعے سندھ بدر کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومت ہر روز ہی امن و امان سمیت زندگی کے ہر شعبے میں اپنی کامیابی اور شاندار کارکردگی کے شادیانے بجاتی نظر آتی ہے جو حقائق کو منہ چڑانے والی بات ہے،ماضی میں لوگوں نے اپنی حفاظت کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت گلیوں کے آگے گیٹ اور رکاوٹیں لگالی تھیں تاکہ چور و ڈاکو ان کی گلیوں میں داخل نہ ہوسکیں تاہم رینجرز کی جانب سے اس یقین دہانی کے بعد کہ وہ شہریوں کی بھرپور حفاظت کریں گے لوگوں سے یہ گیٹ اور رکاوٹیں ہٹوادی گئیں لیکن رینجرز کو اسقدر تنگ کیا گیا ہے کہ اب وہ بھی سڑکوں پر کم ہی نظر آتے ہیں اور اسی بات کا چور ڈاکوئوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور کراچی میں ایک بار پھر چوری، ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں میںاضافہ دیکھا جارہا ہے، صرف مقامی لوگ ہی نہیں بلکہ عید پر بیرون ملک سے اپنے پیاروں سے ملنے کے لئے کراچی آنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی لوٹ لیا جاتا ہے جس کی ایف آئی آر کٹوانے کے لئے بھی پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں،حکومت سے گزارش ہے کہ خدا کے لئے وہ شہریوں کی جان و مال محفوظ بنانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں دل جمعی اور سیاسی مصلحتوں سے مبرا ہوکر ادا کرے تاکہ عوام کا اعتماد جمہوریت اور سیاسی حکومت پر بحال ہوسکے اسی میں سیاست اور جمہوریت کی بقا ہے۔

تازہ ترین