• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقسیم برصغیر کے نتیجے میں پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا تو اس وقت دنیا دوبلاکوں میں بٹی ہوئی تھی، نظریاتی مملکت پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے سپرپاور سوویت یونین کے زیرسایہ آمریت پسند کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں جمہوریت، شخصی آزادی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے علمبردار مغربی بلاک کو ترجیح دی جس کی قیادت دوسری سپرپاور امریکہ کے پاس تھی۔ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے پہلے دورہِ امریکہ کے دوران امریکی صدر ہیری ٹرومین بذاتِ خود پاکستانی وفد کے استقبال کے لئے امریکی ریاست لوزیانا میں موجود تھے،پاکستانی وفدکونہایت عزت و احترام سے نیویارک لایا گیا، جہاں امریکی صدرکے احکامات پر پاکستانی وفد کے اعزاز میں سرکاری پریڈ کا انعقاد کرتے ہوئے ریڈکارپٹ ویلکم کیا گیا اور یوں پاکستان اور امریکہ کے مابین دوطرفہ تعلقات کی بنیادیں برابری کی سطح پر باعزت انداز میںرکھی گئیں جو وقت گزرنے کے ساتھ آج اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی کردار نہ صرف پاکستانی سرزمین میں سنگین جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ رہا ئی پانے کے بعد کتاب لکھ کر سفارتی آداب کی دھجیاں اڑاتے ہوئے زہریلا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ایسے افسوسناک واقعہ کے عوامل کو سمجھنے کیلئے ہمیں پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کا جائزہ لینا پڑے گا، قیام پاکستان سے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ مدتِ حکمرانی کا اعزاز آمروںکوحاصل رہا، صدر ایوب خان نے امریکی مفادات کے حصول کیلئے ہر ممکن حد تک تعاون کیا،انہوں نے دورہ امریکہ کے دوران امریکی اعلیٰ قیادت کو سویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں بھرپور عسکری تعاون کی یقین دہانی کرائی، صدر ایوب کو اپنی تمام تر امریکہ نوازیوں کے باوجوداپنی سوانح عمری میں امریکی تعلقات کے تلخ پہلوؤں کو اجاگر کرنے کیلئے فرینڈز ناٹ ماسٹرز (آقا نہیں بلکہ دوست)جیسی کتاب لکھنی پڑ ی، بعدازاں یحییٰ خان کے دورِ حکومت میں مشرقی پاکستان کا سانحہ وقوع پذیر ہوا، پاکستانی امریکہ کی طرف سے مدد کیلئے روانہ ہونے والے بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہ گئےاور ملک دولخت ہو گیا۔ صدر ضیاء الحق کے زمانے میں ہمسایہ ملک افغانستان میں سوویت جارحیت کا آغاز ہوتا ہے اور پاکستان افغان مہاجرین کی کثیر تعداد کا اپنی سرزمین پر خیرمقدم کرتے ہوئے سوویت یونین قبضے کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کرلیتاہے، سوویت یونین کی تاریخ گواہ رہی تھی کہ اس نے جس ملک کا رخ کیا وہاں پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوا، ویت نام جیسے محاذِ جنگ میں امریکی سپرپاور کو شکست سے دوچار کیا، افغانستان کے بعد سوویت یونین کا اگلا ٹارگٹ پاکستانی ساحلوں پر گرم پانیوں تک بزورِ طاقت رسائی ہی تھا لیکن امریکہ کی حمایت سے پاکستان نے جب افغانستان میں سوویت قبضے کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ سنبھالا تو دنیا نے دیکھا کہ کیسے سوویت یونین کو شکست فاش دی گئی، نہ صرف افغانستان کی سرزمین سے سوویت یونین کی واپسی ممکن بنائی جاسکی بلکہ خود سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، اس جدوجہد میں امریکہ کو تو اپنا عسکری نقصان کروائے بغیر واحد سپرپاور کا درجہ حاصل ہوگیا لیکن پاکستانی اعتدال پسند معاشرے پرشدت پسند عناصر حاوی ہونے میں کامیاب ہوگئے، صدر ضیاء کو ایک ایسے فضائی حادثے میں اس دارِ فانی سے کوچ کرجانا پڑاجس میں امریکی سفیر بھی انکے ہم سفر تھے،تاریخ کے اس ہائی پروفائل فضائی حادثے کی تفصیلات آج تک منظرعام پر نہ آسکیں۔ نوے کی دہائی کا دورِ جمہوریت دوسیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی چپقلش سے بھرپور رہا جس میں کسی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہ مل سکا، جمہوری نظام کی کمزوری نے سیاسی قیادت کو امریکہ کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا جس کا فائدہ امریکہ نے ہی اٹھایااور پھر مشرف پاکستان پرمسلط ہوجاتے ہیں۔ امریکی صدر بِل کلنٹن اپنے دورہ برصغیر کے دوران آمریت کے شکنجے میں جکڑے پاکستان کو مختصر دورانیے کیلئے شرفِ میزبانی بخشتے ہوئے عوام کو جمہوریت کی برکات پر بھاشن دیکررخصت ہوجاتے ہیں اور پاکستان کی امریکہ کیلئے ماضی کی قربانیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں لیکن جلد ہی امریکہ کو نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے کیلئے پاکستانی حمایت کی ضرورت پڑجاتی ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے پاکستان ہی سے ڈومور کا تقاضا کیا جاتا رہا، خودکش حملوںکے نتیجے میں ملک کا چپہ چپہ خون آلود ہوگیا، ڈرون حملوں سے پاکستانی سرزمین کی خلاف ورزی معمول بن گئی اور امریکی اقدامات کے نتیجے میں شدت پسند عناصر نے اپنی بندوقوں کا رخ پاکستان کی طرف کرلیا۔ پاکستان میں استحکام جمہوریت کیلئے دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ( ن )اورپیپلزپارٹی کی پرامن جدوجہد کو کلیدی نوعیت کی اہمیت حاصل ہے، دونوں جماعتوں کے مابین میثاق ِ جمہوریت ملکی سیاسی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے جس کے تحت مسلم لیگ (ن) نے قومی انتخابات کے نتائج میں عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے پیپلزپارٹی حکومت کو تعاون فراہم کیا لیکن بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کی امنگوں کا خیال رکھنے میں ناکام ثابت ہوئی، پیپلزپارٹی دورِ حکومت میں تین بڑے اہم ترین واقعات ریمنڈ ڈیوس، اسامہ بن لادن اور میموگیٹ منظرعام پر آئے اور تمام میں امریکی عناصر ملوث نکلے لیکن پیپلز پارٹی حکومت عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے سے قاصر رہی،یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ریمنڈ ڈیوس واقعہ کوئی حادثاتی سانحہ نہیں بلکہ پاک امریکہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے جس میں پاکستانی قیادت ہمیشہ سے امریکہ کے سامنے سرنگوں ہوتی رہی، پاکستانی عوام اس حوالے سے قصوروار امریکہ کو نہیں بلکہ پاکستانی قیادت کو قراردیتے ہیں جسکا ثبوت پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا امریکہ میں شاندار استقبال تھا، اس وقت امریکہ نے پاکستان کو اپنے غلام ملک کے طور پرنہیں دیکھا بلکہ باہمی مفادات کی بنیادوں پر دوطرفہ تعلقات کو باعزت انداز میں پروان چڑھانے کیلئے سنجیدہ کوشش کی لیکن ہمارے حکمرانوں نے پاک امریکہ تعلقات کو اپنے دورِ اقتدار کو دوام بخشنے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے جائز ناجائز غیرمشروط تعاون کرتے ہوئے امریکی غلامی کا طوق قوم کے گلے میں ڈالا، آمریتوں کے مقابلے میں کہیں کم دورانیے پر مشتمل جمہوری حکومتوں کو ماضی میںکرپشن اور چپقلش کی نذر کیاجاتا رہا ہے جسکی بنا پر سیاسی قیادت نے بھی امریکی حمایت کے حصول کی خاطر ملکی مفادات کو ترجیح نہ دینے میں اپنی عافیت سمجھی۔ موجودہ قیادت کے دورِ حکومت میں ملک استحکام اور امن و ترقی کی جانب بڑھ رہاہے اور آپریشن ضربِ عضب، ردالفساد کی کامیابی نے دہشت گردی کے مراکز ختم کردئیے ہیں تو ریمنڈ ڈیوس کی کتاب منظرعام پر لاکر سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پرپھیلانے کا مقصدمیری نظر میں پاکستانی عوام کو سیاسی اور عسکری قیادت سے بدظن کرنا ہے، امریکہ کو سمجھ لیناچاہئے کہ ریمنڈ ڈیوس جیسے ناپسندیدہ کردار دوطرفہ تعلقات کیلئے زہرقاتل کی سی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ کتاب صرف پاکستان کی بدنامی کا باعث نہیں بنی بلکہ امریکی عزائم کو بھی شدید دھچکا لگا ہے اورمستقبل میں دنیا کی کوئی بھی حکومت امریکہ سے آؤٹ آف دی وے تعاون کرنے میں ہچکچائے گی،میرے خیال میں ایسے قابل مذمت واقعات کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی و جمہوری نظام کو مستحکم کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے اور امریکہ سمیت عالمی برادری سے خوشگوار تعلقات برابری کی سطح پر استوار کرنے کیلئے سیاسی اور عسکری قیادت باہمی طور پرقومی مفاد کا تعین کرتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی وضع کرے تاکہ مستقبل میں ریمنڈ ڈیوس، اسامہ بن لادن اور میموگیٹ جیسے واقعات کسی صورت وقوع پذیر نہ ہوسکیں، ضرورت ا س امر کی بھی ہے کہ قومی نوعیت کے فیصلے بغیر کسی دباؤ کے عدل و انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کئےجائیں لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے جب پاکستان عالمی منظرنامے میں ایک مضبوط اقتصادی قوت کے طور پر سامنے آئے۔

 

.

تازہ ترین