• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دن پر سوچ رہا ہوں کہ اگر ضیاء الحق عالم بالا سے واپس آ جائے تو اسے پیارا پاکستان جس پر اس نے ساڑھے گیارہ سال آمرانہ راج کیا کیسا لگے گا۔ کیا اس نے سو چا تھا کہ اسکے دشمن کی بیٹی اور بیٹا جو اسکے لئے واقعی اس وقت ایک سیاسی خطرے سے زیادہ جانی خطرہ فرض کئےجا رہے تھے اب ٹنوں مٹی تلے دفن ہیں اور اسکی (دشمن کی) پارٹی کےسربراہ اب آصف علی زرداری ہیں۔ جی ہاں۔
کیا وہ اس پر بھی حیران نہیں ہوگا کہ اسکے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والا ہیرو ملک میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار بن سکتا ہے۔
کیا اس حیرت میں پھر مر نہ جاتے کہ وہ جو ہر میچ کھیلنے سے پہلے اس پیر سے پوچھتا تھا جسکی کٹیا کی دیوار پر ایک تصویر ضیاءالحق کی بھی لگی ہوئی تھی۔ پھر وہ اپنی تصویر کو آنکھ مارتے ہوئے خود سے سرگوشی کرتا۔ میچ تب بھی فکس ہی ہوا کرتے تھے ۔ اور طرح کے میچ تھے پر امپائر انگلی نہیں اٹھاتا تھا۔ تین ٹرک دو جیپ میں ہار جیت کا فیصلہ ہو جاتا تھا۔
’’آج کسی کی ہار ہوئی ہے اور کسی کی جیت گائو خوشی کے گیت‘‘ گانے پر وہ کوڑے لگوا سکتا تھا کیونکہ وہ اسکے دشمن (پہلے مہربان اور احسان دان) کا پسندیدہ گیت تھا۔ ویسے اسکی سالگرہ والے دن ریڈیو پاکستان سے فلم ’’زندگی‘‘ کا گانا ’’جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے ، سالگرہ کا دن آیا ہے‘‘ بجانے پر ریڈیو کے افسروں کو گرفتار کر کے فوجی عدالتوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
پھر وہ سینمائوں پر انڈین فلموں کے پوسٹر دیکھ کر بھی دنگ رہ جاتا۔ پھر اسے یاد آتا کہ شترو گھن سنہا کے بچوں کو آرمی ہائوس کی چھت پر بلیاں پکڑنے پر اس پنجابی فلموں کے سندھی ولن مصطفی قریشی نے کیا کہا تھا! ’’صدر صاحب ہمارے بچوں کو بھی آرمی ہائوس کی چھت پر بلیاں پکڑنے کی اجازت دی جائے۔‘‘ پھر وہ حیران ہوتا کہ ایوان صدر کی چھت پر تو بلیاںکتے نہیں آپ کو گھوڑے پکڑنے کی بھی اجازت دی گئی۔ اور تو اور ایوان صدر کی پانچویں منزل پر ’’جئے بھٹو‘‘ کا بھی نعرہ غلام اسحاق خان کے دنوں میں اس وقت لگا تھا جب دشمن کی بیٹی سے حلف لیا تھا۔ پھر وہ خود سے کہتا یہ ہوتے ہی سارے سندھی ولن ہیں۔ پنجابی فلموں کے سندھی ولن نمبر ایک۔
فلموں پر اداکارہ پری چہرہ نسیم یاد آئی جسے دن رات خیالوں میں اسے یاد کیا تھا۔ چاہا تھا۔ فینٹسز۔ جیسے اسکے دشمن کی فینٹسی نرگس تھی۔ لیکن اسے بھی پتہ ہوا ہوگا کہ اصل دلیپ کمار کون نکلا! بڑا نائٹ آف جنرل فلم دیکھتا تھا۔
پری چہرہ نسیم جو اسکی رشتے میں کزن تھی جب اسکے ابا نے سنا اسکا بیٹا اسکے عشق میں مبتلا ہے تو اسکی چھترول کی سب کے سامنے۔ یہ بات صحیح نہیں پر ایک احسان فراموش جنرل نے اڑائی۔ جیسے ایک اور جنرل نے اڑایا تھا کہ میں پہلے ہی دن سے بھٹو صاحب کا تختہ الٹنا چاہتا تھا۔ جلتا تھا اسکو چیف نہیں بنایا نہ مجھ کو بنایا بھٹو صاحب نے اگرچہ میں سینارٹی میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ کی آزادی والے دن چار جولائی کی آدھی رات فوجی بغاوت کے پیچھے ضرور امریکہ کی مرضی شامل ہوگی۔ جیسے اس خبطی نے کہا تھا کہ ہم امریکیوں کو ضرور اپنی حکومت سے پوچھنا چاہئے کہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فوجی بغاوت امریکہ کی منشا کے بغیر کیونکرممکن ہو سکتی تھی؟ وہ پاکستان بھٹو کا مقدمہ لڑنے آیا تھا لیکن ہمارا نظام انصاف دیکھ کر تو بہ کر گیا۔
پھر کہیں دور سے جولائی کی لاہور میں پانچویں کی گرمی والی شب کرشن نگر کی کسی چھت پر سے میڈم کے گانے پر ضیاء ٹھٹکا۔’’دنیا کب چپ رہی ۔ مت کر دنیا کی بات سجن کہیں رات نہ جائے بیت سجن۔‘‘ رات تو پاکستان میں وہی چلی آ رہی ہے پانچویں جولائی والی رات۔ یہ بھی لوگ بکواس کرتے ہیں۔ کہاں ٹکٹکیاں سجی ہیں۔ کہاں پہلوان دبلے پتلے لوگوں کو کوڑے مار رہے ہیں۔ کہاں انکے پیلے بدن سے سرخ سرخ خون کے فواروں نے شہروں کی رونقیں برقرار رکھی ہیں۔ دنیا والے کسی پاگل کتے کے کاٹے ہوئے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ایک جنرل نے بھٹو کی مخبری کی کہ وہ مجھے یعنی جنرل محمد ضیاء الحق کو اس رات برطرف کرنا چاہتا تھا۔ ہم نے اسے پنجاب کا گورنر بنایا اسی لئے ۔ یہ بھی تو دیکھو نہ کہ وہ ہی جنرل تھا جس کا نظر انتخاب نواز شریف ٹھہرے تھے۔
پھر وہ اس پر تشفی کرتا کہ وزیرِاعظموں کی پیشیاں آج بھی انکے خانوادوں سمیت ہو رہی ہیں۔ محمد خان جونیجو کو بھی تو بہت پر پرزے نکل آئے تھے۔ لیکن اس نے مجھے تو دانتوں چنے ضرور چبوائے تھے۔ مجھے رپورٹیں موصول ہوئیں کہ اسکے گائوں والوں نے اسکی برطرفی پر گائوں واپسی پر استقبالیہ بینر لگائے تھے ’’فاتح ضیاء الحق محمد خان جونیجو زندہ باد‘‘۔ زیادہ مبالغہ آرائی بھی تو اس میں نہیں۔ بیچارہ جونیجو نہیں ۔ بیچاری بینظیر بھٹو۔ وہ کام جو پانچ جولائی کو ہم نہیں کرسکے تھے وہ میرے بعد ہوگیا۔ یعنی دشمن کے سب بچوں کا صفایا،
کسی نے مجھے بتایا کہ سندھی شاعر شیخ ایاز نے لکھا ہے کہ ’’محمد خان جونیجو امریکہ میں مر گیا لیکن اسکے سندھڑی آم آج بھی اسکے گائوںمیں جھوم رہے ہیں۔‘‘ آم مجھے یاد نہ دلائو۔ مجھے کس نے مارا؟ مشہود بھائی نے۔ آموں نے؟ یا اس ناول نگار محمد حنیف نے اپنے ناول ’’کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز سے؟‘‘
یہ بھی جھوٹ ہے میں زندہ ہوں۔ میں اگر ابتک زندہ بھی تھا لیکن پھر حیرت سے مر رہا ہوں کہ کٹا ہوا سر رقص کس طرح کر رہا ہے۔ ’’میرا نام ذوالفقار علی بھٹو جو....‘‘
میرا نام محمد ضیاء الحق ہے جو پاکستان میں دیکھ رہا ہوں وہ تو۔ میرے فرشتوں نے بھی نہیں سوچا تھا’’ لڈی ہے جمالو پا....‘‘

 

.

تازہ ترین