• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ احمد پور شرقیہ کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس المناک سانحے میں 211 قیمتی جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی اس وقت لاہور، ملتان اور فیصل آباد کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ محض ایک اتفاقی حادثہ ہے لیکن آئندہ ایسے افسوسناک واقعات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام اور ریاستی اداروں کو شعور و آگاہی فراہم کی جائے۔ اگرچہ سانحہ پر وزیراعظم نوازشریف اپنا دورہ لندن مختصر کر کے فوراً پاکستان پہنچے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ احمد پورشرقیہ کا دورہ کیا اور اسپتالوں میں زخمیوں کی خیریت دریافت کی۔ حکومت پنجاب بھی اس المناک واقعہ کے بعد متحرک دکھائی دی مگر سوال یہ ہے کہ اہم قومی شاہراہ پر آئل ٹینکر الٹنے کے بعد جائے وقوعہ پر پولیس 2گھنٹے تک کیوں نہیں پہنچ سکی؟۔ دنیا میں کہیں بھی اہم شاہراہوں پر ایسے واقعات پیش آتے ہیں تو پولیس فوری طور پر حادثے کی جگہ پر پہنچتی ہے اور وہاں چاروں طرف سے علاقے کو سیل کرلیا جاتا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اکثر پولیس جائے حادثہ پر خاصی تاخیر سے پہنچتی ہے۔ احمد پورشرقیہ کے واقعہ میں بھی ہائی وے پولیس کی روایتی سستی اور مجرمانہ غفلت دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے اس صورتحال کا نوٹس تو لیا ہے اور غفلت کے مرتکب مقامی ڈی ایس پی اور دیگر عملے کو معطل بھی کیا ہے مگر یہ ناکافی ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں کئی سنجیدہ اقدامات مزید کرنے ہوں گے۔ اگر احمد پورشرقیہ کے واقعہ پر پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے جلد حرکت میں آجاتے تو اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع کا المیہ رونما نہ ہوتا۔ اسی تناظر میں گزشتہ دنوں سرکاری ٹیلی وژن کے ٹاک شو میں مجھے بطور تجزیہ کار شرکت کا موقع ملا۔ احمد پورشرقیہ کے ایشو پر ہونے والے ٹاک شو میں میرے ساتھ ممتاز دانشور اور کالم نگار سلمان عابد، مفتی منیر اور ڈاکٹر فرخ محمود بھی شریک تھے۔ میں نے اس المناک سانحے پر عرض کیا کہ یہ اتفاقی حادثہ ضرور ہے مگر ہائی وے پولیس موقع پر پہنچ جاتی تو اتنا بڑا جانی نقصان نہ ہوتا۔ اسی طرح اگر بہاولپور ڈویژن کے اسپتالوں میں برن سینٹرز ہوتے تو یقینی طور پر کئی قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا تھا۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ حکومت پنجاب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا دعویٰ تو کرتی ہے مگرعملاً پورے پنجاب میں ایسا نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب اور دیگر دور درازعلاقوں میں پسماندگی آج بھی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ پل اور سڑکیں بنانے کا عمل بھی لاہور سمیت صرف چند بڑے شہروں میں جاری ہے۔ تعلیم اور صحت عوام کی بنیادی ضروریات ہیں، اس پر بھی حکومت کو ضرور توجہ دینی چاہئے۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) کی مرکز اور پنجاب میں حکومت ہے۔ بلوچستان میں بھی وہ شریک اقتدار ہے۔ 2013میں الیکشن سے قبل وزیراعظم نوازشریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں تعلیم کو عام کریں گے اور غریب عوام کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کریں گے۔ آج مسلم لیگ کی حکومت کو 4سال گزر چکے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے سخت مایوس ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ چار سال سے لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی عوام کی گردنوں پر مسلط ہے اور حکومتی دعوئوں کے باوجود ابھی تک اس سے مکمل طور پر نجات نہیں مل سکی۔ یہی صورتحال تعلیم اور صحت کے مسائل کی بھی ہے۔ سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران بھی لوگوں کو انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ دور حکومت میں کرپشن کا گراف بڑھتا گیا حتیٰ کہ پاناما لیکس کا اسکینڈل منظر عام پر آیا جس میں اب حکمران خاندان بری طرح پھنس چکا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ چوہدری پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب میں اسپتالوں کی حالت خاصی بہتر تھی۔ غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا رہا لیکن آصف علی زرداری کی حکومت میں سرکاری اسپتالوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں نے اپنی حکومتوں کے دوران تعلیم اور صحت کے شعبوں سے اپنے ہاتھ اٹھا لئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عوام مجبوراً مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی جانب رخ کر رہے ہیں۔ یہ 20کروڑ پاکستانی قوم کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔
اب کچھ تذکرہ ہو جائے لاہور میں جماعت اسلامی پنجاب کے زیر اہتمام ہونے والے قومی انتخابات کنونشن کا! لگتا ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے والا ہے۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے تو آئندہ انتخابات 2018کے حوالے سے تیاریاں ابھی سے شروع کردی ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی گزشتہ ہفتے الحمرا ہال لاہور میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی زیر صدارت پورے پنجاب سے آئندہ انتخابات کے لئے قومی وصوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو اکٹھا کر کے اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کردیا ہے۔ قومی انتخابات کنونشن سے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، لیاقت بلوچ، میاں مقصود احمد، بلال محبوب، میاں محمد اسلم، اصغرعلی گجر، زبیر گوندل اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ اس موقع پر فرید احمد پراچہ، محمد اصغر، شاہد وارثی، جاوید قصوری، شیخ عثمان فاروق، عزیر لطیف، انور گوندل، ملک رمضان روہاڑی اور دیگر بھی موجود تھے۔ اس وقت جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی طرح پنجاب میں بھی بھرپور طریقے سے فعال نظر آرہی ہے۔ سراج الحق کا قومی انتخابات کنونشن سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے بارے میں آنے والا فیصلہ کرپشن کے مگرمچھوں کو گھیرنے کی قومی تحریک کا نقطہ آغاز ہوگا۔ جناب سراج الحق نے بالکل ٹھیک نشاندہی کی ہے کہ عوام اب کرپشن اور بدعنوان ٹولے سے نجات اور ملک میں دیانتدار قیادت چاہتے ہیں۔ سینیٹر سراج الحق جب سے جماعت اسلامی کے امیر بنے ہیں ان کی عوام میں مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی طرح وہ بھی پورے ملک میں خاصے متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ وطن عزیز میں کسی جگہ بھی کوئی آفت یا پریشانی آتی ہے جناب سراج الحق وہاں سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ انہیں عوام کے دکھ اور تکلیف کا احساس ہے۔ احمد پورشرقیہ کے سانحے میں بھی انہیں یہی فکر دامن گیر رہی۔ وہ عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے لیکن اپنی ضعیف والدہ کو ملے بغیر دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے پہلے احمد پور شرقیہ روانہ ہوگئے اور وہاں گھر گھر جا کر متاثرین سے اظہار افسوس کیا۔ سراج الحق حقیقی عوامی رہنما ہیں۔ وہ دو مرتبہ خیبرپختونخوا میں سینئر صوبائی وزیر کے عہدے پر فائز رہے مگر انہوں نے وہاں امانت ودیانت کی شاندار مثال قائم کی۔ عالمی اداروں نے بھی ان کی دیانتداری اور اعلیٰ کارکردگی کا اعتراف کیا۔ سینیٹر سراج الحق پاکستان میں آئینی وجمہوری اور پارلیمانی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا یہ عزم ہے کہ ملک میں امن کا قیام اور قانون کی حکمرانی ہو اور وہ ڈنڈے اور بندوق کے زور پر نہیں بلکہ عوام کی تائید سے اسلامی اور خوشحال پاکستان قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی جدوجہد کا اصل ہدف ملک میں نظام مصطفی ؐ کا نفاذ ہے اور مسائل کی موجودہ دلدل سے نکلنے کے لئے نفاذ شریعت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ جناب سراج الحق کی قیادت میں جماعت اسلامی 2018کے الیکشن کے حوالے سے میدان عمل میں اتر چکی ہے۔ اس مرتبہ خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ سمیت پورے ملک میں موثر حکمت عملی کے ساتھ جماعت اسلامی نے اپنے امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ جماعت اسلامی اگلے انتخابات میں خیبرپختونخواہ، پنجاب اور کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بہتر ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ نمایاں کامیابیاں حاصل کرے گی۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی مکافات عمل کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ(ن) پاناماکیس اور پیپلزپارٹی سندھ میں مشکلات میں گھری نظر آرہی ہے۔ موجودہ منظرنامے میں اگر جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور دیگر دینی جماعتیں خیبرپختونخوا، پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بہتر انتخابی پلاننگ کرلیں تو پاکستان میں دو پارٹی سسٹم سے چھٹکارہ حاصل ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین