• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز زرمبادلہ منڈی میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 3.1فیصد کی اچانک حیران کن کمی کا وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے فوری نوٹس لیا جانا بلاشبہ حوصلہ افزا نتائج کا حامل ثابت ہوا۔ جمعرات کے روز روپے کی قدر بہتر ہوگئی اور ڈالر کی انٹر بینک قیمت ڈھائی روپے فی ڈالر کی کمی کے ساتھ 105روپے 50پیسے ہوگئی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو بینک سربراہان سے ہنگامی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کو ایک شخص کا فیصلہ قرار دیا اور اس کی وجہ رابطوں میں فقدان بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی پوری طرح تحقیقات ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت نے اپنی فارن ایکسچینج پالیسی میں تبدیلی نہیں کی۔ بینکوں کے سربراہوں کو کسی شخص نے غلط اطلاع دی تھی اور مصنوعی طور پر پیدا کی گئی صورتحال سے قبل فی ڈالر 104.90روپے کی جو قیمت تھی وہی پاکستانی کرنسی کی حقیقی قدر ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ملک کی کرنسی کی قدر میں تبدیلی کے درآمدات، برآمدات، اسٹاک ایکسچینج سمیت بہت سے شعبوں میں دورس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لئے اس باب میں پوری احتیاط لازم ہے مگر وطن عزیز اپنی ضروریات اور ترقیاتی کاموں کیلئے جن مالیاتی اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہے انکے مشوروں کی صورت میں بعض فیصلوں کا دبائو بھی رہتا ہے۔ تین ہفتے قبل ہی آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کی جانب سے اور وسط جون 2017ء میں آئی ایم ایف کے جاری کردہ ہینڈ آئوٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی روپے کی خریدو فروخت اس کی حقیقی قدر کے لحاظ سے ہونی چاہئے جو آئی ایم ایف کے خیال میں 116روپے فی ڈالر ہے۔ اسٹیٹ بینک میں باضابطہ طور پر مستقل گورنر کی تقرری کا فیصلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی ضروری اس بات کا تعین کرنا بھی ہے کہ وزیر خزانہ نے پاکستانی کرنسی کی جس حقیقی قدر کی نشاندہی کی ہے اس کو برقرار رکھنے کے لئےکیا تدابیر کی جاسکتی ہیں۔ اس بات کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئےکہ قرض دینے والے اداروں کے مشوروں کو کس حد تک لازم سمجھنا اور کس حد تک نظرانداز کرنا ہمارے لئے ممکن ہے؟

تازہ ترین