• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب دوائیں جعلی ہوسکتی ہیں اور ڈگریاں جعلی ہوسکتی ہیں تو پھر کتے کیوں جعلی نہیں ہوسکتے؟ آپ کہیں گے کہ واہ، یہ کیا بات ہوئی۔ ڈگری کے بارے میں کسی نے کچھ بھی کہا ہو لیکن کتے تو کتے ہوتے ہیں۔ نقلی اور اصلی کا کیا مطلب ہے۔ تو معاملہ یہاں یہ ہے کہ کراچی کی خاموش کالونی کے ایک شخص کو اس الزام پر گرفتار کیا گیا ہے کہ اس نے گلی کے کتے کو ایک اعلیٰ نسل کا کتا کہہ کر فروخت کیا۔ یہ کام انٹر نیٹ کے بازار میں کتے کی تصویر لگا کر کیا گیا۔ طریقہ واردات یہ تھا کہ ملزم گلی کے آوارہ کتے پر رنگ چڑھا کر اسے ایک خاص نسل کا کتا بتاکر فروخت کرتا تھا۔ ایک گاہک نے پورے پچاس ہزار روپے میں ایسا ایک کتا خریدا اور جب گھر لے جاکر اسے نہلایا تو اس کا رنگ اترنے لگا۔ یعنی اصلی اور جعلی کا فرق واضح ہوگیا۔ اس نے پولیس کو اطلاع دی اور اس طرح دفعہ 420کا ایک مثالی کیس رجسٹرڈ ہوگیا۔ اب آپ شاید یہ جاننا چاہیں کہ میں اس واقعہ کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہوں میں اس میں مزاح کا بھی کوئی پہلو نہیں دیکھ رہا۔ ویسے یہ ایک ایسی چلبلی خبر ہے کہ کئی نیوز چینلز پر نشر ہوئی۔ پتہ نہیں کسی کو کوئی مناسب فلمی گانا بھی ملا یا نہیں۔ میری نظر میں اس خبر کا رشتہ ان خبروں سے بنتا ہے کہ کہاں کھانے کی کس چیز میں ملاوٹ کا انکشاف ہوا اور کس فیکٹری میں ناقص یا جعلی اشیاء تیار کی جارہی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسی خبروں کی بھرمار ہے۔ جگہ جگہ غیرقانونی فیکٹریوں میں دو نمبر کا مال تیار ہورہا ہے۔ یہی نہیں، دوائوں اور کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ اور ہیرا پھیری کے واقعات اس تسلسل سے سامنے آتے رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ آپ جس فیکٹری یا ادارے میں گھس جائیں، کوئی نہ کوئی کمی یا جعلسازی ضرور مل جائے گی۔ اور یہ جو گلی کے کتے کو گویا نئی پوشاک پہناکر بیچنے کا واقعہ ہے تو شاید آپ اس شخص کی ذہانت اور چالاکی کا اعتراف بھی کریں۔ آپ سوچیں کہ یہی تو پاکستانیوں کا کمال ہے۔ ان کا ذہن کتنا چلتا ہے۔ لیکن جو مجرمانہ روش ہے وہ بھی تو واضح ہے۔
تو ہاں، کتے کی خبر کو اپنے کالم کا موضوع میں نے اپنے معاشرے میں دھوکہ دہی، جعلسازی اور جھوٹ کی فراوانی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بنایا ہے۔ آپ اسے ایک استعارہ سمجھ لیں۔ کئی چیزوں کے بارے میں یہ شک کیا جاسکتا ہے کہ یہ اصلی ہیں یا ان میں کوئی کھوٹ ہے۔ پتہ نہیں ایسے کتنے ملک ہیں جہاں دوائوں اور کھانے پینے کی چیزوں میں اتنی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ یوں ہم معاشرے کی اقدار اور عمومی کردار کی بات بھی کرسکتے ہیں۔ جگہ جگہ دو نمبر کی چیزیں فروخت ہورہی ہیں۔ یہ مجرمانہ بے راہ روی کتنی کم ہے اور کتنی زیادہ اس کا اندازہ آپ خود لگالیں۔ میں نے تو برآمد کی جانے والی اشیاء میں بھی ہیرپھیر کے قصے سنے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ اس طرح پاکستان کا نام بھی بدنام ہوتا ہے۔ کسی حد تک تو لوگ بھی یہ قبول کرلیتے ہیں کہ ان کی خریدی ہوئی اشیاء میں کوئی نقص یا کمی ہوسکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک پرانی فلم کے کسی کردار نے خودکشی کے لئے زہر خریدا اور اسے کھا کر بھی اس لئے بچ گیا کہ زہر میں ملاوٹ تھی۔ پھر ہماری زندگی میں ایک اور قسم کی ملاوٹ بھی پائی جاتی ہے جس کا تعلق جعلی دوائوں سے نہیں بلکہ جعلی ڈگریوں سے ہے۔ یعنی جھوٹ اور فریب۔ پتہ نہیں امتحانوں میں کی جانے والی نقل کو بھی ہم اس خانے میں رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ ایک اور پہلو بھی اس دھوکہ دہی کا ہے کہ جس کا ذکر شاعر بھی کرتے ہیں۔ یعنی ’’ایک چہرے پر کئی چہرے لگا لیتے ہیں لوگٔ‘‘۔ دوسرے لفظوں میں ’’ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھٔ‘‘۔
اس کالم پر یہ اعتراض کوئی نہ کوئی ضرور کرے گا کہ ملکی سیاست میں اتنا ہیجان ہے۔ 5جولائی کا دن بھی اسی ہفتے گزرا ہے اور اس طرح کا حوالہ اس لئے بھی برمحل ہے کہ ان دنوں بھی موجودہ حکومت کے خلاف کسی پراسرار سازش کی باتیں ہورہی ہیں۔ ضیاء الحق کے مارشل لا کے نفاذ کو 40سال گزر چکے ہیں لیکن اس کے تاریک سائے ہمارے ملک کی سیاست اور معاشرتی زندگی پر پھیلے ہوئے ہی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مارشل لا کی ملاوٹ نے ہماری جمہوریت کو بڑی حد تک مفلوج کر رکھا ہے۔ لیکن 5جولائی کی بڑی خبر مریم نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی تھی۔ اسے ہم قومی سیاست میں ان کی رونمائی بھی کہہ سکتے ہیں۔ غرض سیاست کے آتش فشانی غلغلے نے باقی تمام معاملات اور موضوعات کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ سو اس پس منظر میں میرے لئے کسی کتے کے روپ، بہروپ کا ذکر کرنا جیسے چیختی چلاتی سچائیوں سے منہ موڑ لینا ہے۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ میں نے آج کے حالات کی مناسبت سے ہی اپنے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ جو سیاست داں اس ملک کو ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں یا جو ایک نئے پاکستان کا وعدہ کرتے ہیں ان کو یہ بتانا ہے کہ پہلے اپنے ملک اور اپنے معاشرے کی حقیقت کو تو سمجھو۔ یہ تو سوچو کہ اسے بدلو گے کیسے۔ اور کیا ان افراد کی ہمراہی میں کہ جو بار بار حکومتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں خواہ وہ حکومت نیم جمہوری ہو یا مکمل فوجی یعنی ایک فوجی ڈکٹیٹر کی تابع۔ کیا یہ لوگ اس ملک کو اس کے معاشرے کی کمزوریوں کو سمجھے بغیر بدل سکتے ہیں؟ یہ بات میں نے کئی بار کہی ہے کہ پاکستان کا بحران دراصل نہ سیاسی ہے اور نہ معاشی۔ یہ دراصل ایک فکری اور تہذیبی اور اخلاقی بحران ہے۔ اس معاشرے میں ہر طرح کی ملاوٹ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کے محروم عوام خود کو بے یارو مددگار سمجھتے ہیں۔ سیاست داں اقتدار کے جھگڑوں میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں معاشرے کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اور خبر بھی کیسے ہو۔ وہ تو کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔
ایک اور عذر بھی ہے میرے پاس کہ میں نے ایک کتے کی کہانی کو اپنے معاشرے کی تمثیل بتانے کی کیوں کوشش کی ہے۔ کئی سال پہلے میں نے اپنے انگریزی کے کالم میں ایک کتاب کا ذکر کیا تھا جس کا نام ہے ’’ٹرسٹ‘‘۔ یعنی بھروسہ یا اعتبار۔ ایک مشہور امریکی دانشور نے کافی ریسرچ کے بعد یہ تھیوری پیش کی ہے کہ وہی معاشرے خوشحال ہوسکتے ہیں جن میں افراد اپنے اداروں اور ایک دوسرے پر بھروسہ کرسکیں۔ ان پر اعتماد کرسکیں۔ اس ضمن میں امریکہ ، چین، جرمنی اور جاپان جیسے ملکوں کے اداروں اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ استدلال یہ ہے کہ معاشرے کے عام افراد کے کردار اور اوصاف کی بنیاد پر ہی قومی ترقی اور خوشحالی کا انحصار ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کا دائرہ کافی وسیع ہوتا ہے۔ اسی سے افراد اور اداروں کے درمیان ایک خاص رشتہ قائم رہتا ہے۔ یہ وہ قدریں ہیں جو عقیدے ، روایات اور تربیت سے پیدا ہوتی ہیں۔ جن معاشروں میں ’’ٹرسٹ‘‘ کی بنیادیں مضبوط ہیں ان میں عام تعلقات میں سچائی اور ایمانداری کا عمل دخل نمایاں ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے معاشروں میں جرائم نہیں ہوتے یا کچھ لوگ دھوکے باز نہیں ہوتے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کہاں کتنی ملاوٹ کی جاتی ہے اور عام لوگ کتنے ایماندار ہوتے ہیں۔ اجتماعی کردار اور عمل کو ہم معاشرتی سرمایہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے کہ جس کا حساب اسحٰق ڈار کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن یہی سرمایہ ملکوں اور معاشروں کو خوشحال بناتا ہے۔ اور شکل یہ ہے کہ یہ سرمایہ کہیں سے قرض نہیں مل سکتا۔ اور جب تک ہم اپنے کردار اور عمل کو بھروسے کے قابل نہ بنائیں، ہم مفلس ہی رہیں گے۔ اب اس اتفاق کو دیکھئے کہ کل یعنی جمعہ کے ’’جنگ‘‘ کی سب سے بڑی سرخی یہ تھی کہ ’’جعلی احتساب ہورہا ہے، نوازشریف‘‘۔ صورت حال دراصل اتنی بری ہے کہ معاشرے کی بے راہ روی سے جو نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں وہ انتہائی خوفناک ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ بھی پوچھ لے کہ کیا ہماری حب الوطنی اور ہمارا جوش ایمانی بھی کسی حد تک جعلی ہے؟

تازہ ترین