• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یلغار فلم دیکھی اور یقین مانیے ، یہ فلم مجموعی طور پر ایک اچھی فلم ہے، اس کا مقصد عظیم ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان کے لوگوں کو جرات ، بہادری اور ہمت کا پیغام دیا گیا ہے۔ اس فلم کے ذریعے یہ مقصد پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ پاکستان کی اب تک کی سب سے مہنگی فلم تصور کی جاتی ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس کا بجٹ ساٹھ کروڑ روپے ہے۔ بیک وقت بائیس سے زیادہ ممالک میں اس کو نمائش کے پیش کیا جا رہا ہے۔ فلم کے آخری بیس منٹ تو ناظر کو بہت جذباتی کرتے ہیں۔ کئی جگہ تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔کوئی بھی فلم جب نمائش کےلئے سینما گھروں میں فلم بینوں کے پیش کی جاتی ہے تو اس پر تنقید بھی عام عوام کا حق ہوتا ہے۔میرے منہ میں خاک ،اگر میں ساٹھ کروڑ روپے کے بجٹ کے حوالے سے رسیدیں اور تلاشی وغیرہ کا سوال کروں۔ مجھے اس کے بجٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ہاں البتہ تکنیکی اور تخلیقی اعتبار سے اس فلم میں چند ایک سقم ضرور ہیں مگر یقین مانیے مجھے ان پربھی قطعی کوئی اعتراض نہیں ہے۔
مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ سوات کے پس منظر میں فلمائی جانے والی اس فلم کے قریباََ تمام تر اداکار کبھی پنجابی اور کبھی خالص اردولہجے میں کیسے گفتگو کر سکتے ہیں؟ مجھے اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں جذبات کی رو میں، ایکشن، جنگ اور فائٹ کے جدید ترین طریقے سے مناظر کو فلم بند کرتے ہوئے، فلم کی کہانی کہیں مفقود اور معدوم ہو گئی۔ مجھے اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کہ کرداروں کی بھرمار کی وجہ سے فلم میں آخری لمحات تک ہیرو کا تعین نہیں ہوسکا۔ مجھے اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیںکہ بلاوجہ تکلیف دہ حد تک طویل مکالموں نے کہانی کی رفتار میں اسپیڈ بریکرز کیوں لگا دئیے ؟ مجھے اس بات پر بھی کوئی اعترض نہیں کہ ایک منجھے ہوئے اداکارجو کہ دہشت گردوں کے سرغنہ کا کردار ادا کر رہے تھے ان کا گیٹ اپ اتنا مضحکہ خیز کیوں تھاکہ خوف کے بجائے ہنسی آتی تھی۔ مجھے اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ ڈائریکشن اور ایڈیٹنگ کی بعض غلطیاں اتنی فاش کیوں تھیں؟ مجھے اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ سوات کی ایک مقامی شادی میں پنجابی گیت متھے تے چمکن وال میرے بنڑے دے کیسے گایا گیا؟مجھے فلم کی کاسٹنگ اور خواتین اداکارائوں کی بدترین ایکٹنگ پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے؟مجھے اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ فلم میں وار ایریا رپورٹنگ کے کسی واررپورٹرکی بجائے ایک خاتون کالمسٹ کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ مجھے اس ڈائیلاگ پر بھی اعتراض نہیں کہ فوج میں چائے اور بے عزتی کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ حالانکہ میرے ذاتی خیال میں یہ آداب کے منافی تھا ،مگر یقین مانیے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔مجھے اس بات پر بھی اعتراض نہیں کہ ہمارے شاندار ملی نغموں کا اس فلم کے میوزک میںزیادہ استعمال کیوں نہیں کیا گیا۔ ملکہ ترنم نورجہاں، مہدی حسن ، امانت علی خان اور نصرت فتح علی کی آواز اب بھی دل میں جذبہ جگاتی ہے۔پوری فلم میں صرف ایک منٹ کے شفقت امانت علی کی آواز میں ایک پرانا ملی نغمہ استعمال کیا گیا جو فلم کا سب سے جذباتی لمحہ بن گیا۔ مجھے اس ڈائیلاگ پر بھی کوئی اعتراض نہیں جب محبت کے اظہار کے جذبات کا احا طہ کرنے والا دقیق جملہ بولا گیا۔مجھے اس بے معنی ڈائیلاگ پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ تیری موت اس خاموشی کی پہلی چپ ہوگی۔مجھے فلم کے آخری منظر پر بھی کوئی اعتراض نہیں جب وطن دشمن گروہ کے سرغنہ کو گولی مارنے کے بجائے ہاتھوں سے مارنے کی سزا کا اعلان کیا گیا، سب کو ہتھیار پھینکنے کا حکم دے دیا گیا اور پھر اس کے سینے میں خنجر کیوںگھونپ دیا گیا؟مجھے اس ڈائیلاگ سے بھی اتفاق ہے جب ایک آفیسر کو ایک ٹاسک مکمل کرنے کے چھ گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے اور وہ ہیلی کاپٹر سے چھلانگ لگانے سے پہلے اعلان کرتا ہے کہ وہ اور اسکی ٹیم یہ کام دو گھنٹے میں مکمل کر کے دکھائیں گے۔اس بات سے اس وجہ سے بھی متفق ہوا جا سکتا ہے کہ ماضی میںدیکھا گیا ہے کہ اسی عقابی برق رفتاری کے سبب، ہم نے بارہا پانچ ، پانچ سال کے کئی کام دو ، تین سال میں نمٹا دئیے ۔ مجھے اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ اگر اس فلم کے ذریعے دہشت گردوں کو دہشت زدہ کرنا مقصود تھا تو عمومی اطلاعات کے مطابق تو یہ دہشت گر د فلموں جیسی تفریح سے احتراز کرتے ہیں۔ یہ ساری تکنیکی اور تخلیقی باتیں اپنی جگہ لیکن فلم مجموعی طور پر ایک اچھی فلم ہے۔ معلوم ہواہے کہ اس فلم کا پروجیکٹ دوسال پہلے شروع کیا گیا تھا۔ اس کودیکھنے والوں کے دل میں جرات ، بہادری اور شجاعت کا جذبہ جاگتا ہے۔
مجھے اس فلم پر صرف ایک اعتراض ہے کہ یہ فلم بہت دیر سے بنی ہے۔ ایسی فلم کو بہت پہلے بن جانا چاہئے تھا۔ خود سوچیے کہ ہماری تاریخ کے کتنے کردار اس فلم کو دیکھنے کی سعادت سے محروم رہے ہیں۔ اگر یہ فلم محترمہ فاطمہ جناح نے دیکھی ہوتی تو وہ ایک چھپن انچ کی چھاتی والے ڈکٹیٹر سے ٹکر لینے کا سوچتی ہی نہیں۔ چپ چاپ مادر ملت کے عہدے پر فائز رہتیں اور مسلم امہ کی پہلی جمہوری خاتون وزیر اعظم بننے کا خواب دل سے نکال دیتیں۔ ریڈیو پاکستان پر براہ راست خطاب کی کوشش بھی نہ کرتیں ۔ جس کے نتیجے میں ایک بہادر ڈکٹیٹر کو تکنیکی خرابی کا بہانہ بنا کر ان کی آواز عوام تک پہنچانے سے روکنی پڑی۔یہ فلم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی دیکھنی چاہئے تھی۔ اگر وہ دیکھ لیتے تو یہ عوام کی حکومت ، جمہوریت ، عوام کے ووٹ اور سول سپرمیسی ٹائپ کی باتیں نہ کرتے ۔ چپ چاپ ایک ڈکٹیٹر کے عطا کردہ پھانسی کے پھندے پر جھول جاتے ۔ بلکہ جب اس زمانے میں یہ جملہ بہت مقبول ہو رہا تھا کہ لاشیں دو ہیں اور قبر ایک، تو بھٹو کو چاہئے تھا کہ اسی لمحے اپنی جمہوری جدو جہد ترک کر دیتے ، برضا و رغبت مجوزہ قبر میں خود ہی لیٹ جاتے، رضا بہ رضا اپنی قبر پر خود ہی عوام کی امیدوں کی چادر چڑھاتے ،اپنی تربت پر خود ہی عوام کے مسخ شدہ ووٹوں کا عطر اور لوبان چھڑکتے اور اپنی مرقد پرعوامی امیدوں کی اگر بتیاں جلا کرہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتے۔بدقسمتی سے یہ فلم پیپلز پارٹی کے ان ڈرپوک ، بزدل جیالوں نے بھی نہیں دیکھی جنہوں نے بھٹو کے غم میں آمریت کے خلاف خود کو سرعام نظر آتش کر لیا تھا۔ یہ فلم جنرل مشرف نے بھی نہیں دیکھی تھی ورنہ نائن الیون کے بعد امریکی صدر کی ایک ہی فون کال کے بعد وہ ڈھیر نہ ہوجاتے۔جرات اور شجاعت سے کام لیتے ۔ ملکی اڈے ، افراد اور ائیر پورٹ انکے حوالے کرنے کے بجائے عقابی شجاعت کا مظاہرہ کرتے۔ یہ فلم ان پاکستانیوں کو بھی دیکھنی چاہئے تھی جو اس معاہدے کے آج تک متلاشی ہیں جو اس ایک فون کال کے نتیجے میں ہوا تھا، یہ فلم ان لوگوں کو بھی دیکھنی چاہئے تھی جو آج بھی یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہماری قومی غیرت اور حمیت کے علاوہ اس فون کال پرکس کس بات کا سودا ہو ا ؟کیا کچھ فروخت کیا گیا ؟ قیمت کس کس چیز کی لگی؟ یہ فلم ریمنڈ ڈیوس نے بھی نہیں دیکھی ورنہ وہ اس بے باکی سے اس ملک سے دو نوجوانوں کا قتل کر کے باعزت بری نہیں ہوتا۔ یہ فلم اس نے بھی نہیں دیکھی جو ریمنڈ ڈیوس کیس میںعدالت میں بیٹھ کر امریکی حکام کو لمحہ لمحہ فتح مبین کے ٹیکسٹ میسج بھیج رہا تھا۔یہ فلم نواز شریف کو بھی دیکھنی چاہئے تھی ورنہ وہ کروڑوں لوگوں کے ووٹوں سے عطا کردہ وزارت عظمی سے دو دفعہ نکالے جانے کے باوجود تیسری دفعہ وزیر اعظم ہونے پر مصر نہ ہوتے۔ چپ چاپ سعودی عرب میں اپنا کاروبار سنبھالتے۔اللہ اللہ کرتے۔یہ فلم جے آئی ٹی کے ممبران کو بھی دیکھنی ہئے تھی ورنہ وہ جرات کا مظاہرہ کرتے حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے شخص کا نام اور اسکے ادارے کا نام واشگاف الفاظ میں لیتے۔ کسی سے نہ ڈرتے۔ہمت سے کام لیتے ۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے یہ فلم نہیں دیکھی۔ جرات اورحوصلہ ابھی ان میں در نہیں آیا۔ مجھے امید ہے جیسے ہی یہ فلم انکی نگاہ سے گزرے گی ان میں شجاعت کا وہ سرمدی ولولہ عود کر آئے گا اور اسی لمحے اس شخص اور اسکے ادارے کا نام منظر عام پر آ جائے گا۔ کہنے کی بات صرف اتنی ہے کہ جب تک یہ یلغار دہشت گردوں پر برق بن کر گرے گی سب اس یلغار کی پکارمیں ہم آواز ہوں گے۔
خیر یہ جے آئی ٹی اور اسکا قصہ تو جملہ معترضہ کے طور پر اس تحریر میں آگیا کہنے کامقصد صرف اتنا ہے کہ یلغار فلم دیکھی اور یہ یقین مانیے فلم مجموعی طور پر ایک اچھی فلم ہے اس کا مقصد عظیم ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان کے عوام کو جرات ، بہادری اور ہمت کا پیغام دیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کی اب تک سب سے مہنگی فلم تصور کی جاتی ہے۔

تازہ ترین