• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک ڈرامہ لکھنے جارہا ہوں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ مجھے ڈرامہ لکھنے کاشوق ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ روز ٹی وی پر جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے، اس سے انسان ڈرامہ نہیں ڈرامے لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں روایتی انداز میں ڈرامہ لکھتے ہوئے چلئے اپنے کرداروں سے تعارف حاصل کرتے ہیں۔ لیکن کرداروں سے تعارف کرانے سے پہلے ڈرامے کا نام تو تجویز کرلیں۔ لوگی پیراندالو نے تو اپنے شہرہ آفا ق ڈرامے کا نام رکھا تھا "Six Characters In Search Of An Author."یعنی چھ کرداررائٹر کی تلاش میں۔ ہم ابھی اپنےڈرامے کا نام رکھتے ہیں ’’کچھ کردار رائٹر کی تلاش میں‘‘  چلئے اب کرداروں سے ملتے ہیں ہمیں چونکہ اس طرح کے ڈراموں میں بہت Abstract نہیں ہونا چاہئے اس لئے کردار جیتی جاگتی زندگی سے لینے پر مجبور ہیں۔کردار:عمران خان، نوازشریف، شہباز شریف، حسن،حسین، مریم، اسحاق ڈار وغیرہ کردار تو میں نے لکھ دیئے لیکن یہ کیا اچھے ڈرامے کے لئے ایک بہت بڑا عنصر تجسس کا ہے اور میں نے کرداروں کے نام لکھ کر پڑھنےوالے کے لئے یہ تجسس ختم کردیاہے۔ اس لئے کہ میرے ان کرداروں کے لکھنے کے ساتھ ہی میرے دوست مجھے کہہ رہےہیں کہ اس سے آگے ہمیں سب معلوم ہےکہ تمہارے ڈرامے میں کیا ہوگا بلکہ ہم تو تمہارے نہ لکھنےکے باوجود اسکرپٹ رائٹر کے بارے میں بھی جان گئے ہیں۔ اچھا تو پھر ان لوگوں کی خاطر کچھ غیرحقیقی عنصر شامل کرنا پڑیں گے تاکہ ڈ رامے کو مزید بنایا جاسکے۔ میں شاید اتنے قلیل وقت میں ڈرامے کو مکمل نہ کرسکوںاس لئے ابھی صرف پہلے ایکٹ پر توجہ دیتے ہیں۔ باقی شاید پڑھنےوالے خود ہی جان لیں اور مجھے ڈرامہ مکمل کرنے کے عذاب سے نہ گزرنا پڑے۔ پہلاایکٹ شرو ع کرتے ہیں لیکن یہ کیا،میرے دوست مجھے کہہ رہے ہیں کہ ڈرامے کی تکنیکی نوک پلک درست کرنے سے پہلے اور پہلا ایکٹ لکھنے سےپہلے بتائو تو سہی تم کہانی کہاں سے شروع کرنا چاہتے ہو اور یہ کہ یہ کیا ڈرامہ ہے جس میں قطری شہزادہ، آئی ایس آئی اور جے آئی ٹی کے نام شامل نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے دوست نے کہا کہ یہ بھی بتائو کہ تم ڈرامہ شروع کہاں سے کرنا چاہتے ہو؟
چلئے شروع کرنے کے لئے میں اپنےساتھی رائٹر رئیس انصاری کے اسکرپٹ کے پہلے ڈرافٹ کے کچھ نوٹس آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں، ڈرافٹ کچھ ایسے ہےاور یہ بھی ایک طرح سے پورا ڈرامہ ہے۔
ایس ای سی پی کےریکارڈ میں کی گئی تبدیلی کمپیوٹر کے فرانزک تجریئے کے بعد باقاعدہ جعل سازی ثابت ہوچکی ہے اور امکان یہی ہے کہ چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف مقدمہ کرکے انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔
چیئرمین کے داماداور ایک وفاقی وزیر کے بیٹوں کا مشترکہ کاروبارہے۔ ریاست کے دو بڑے اداروں کی باگیں ہاتھ میں تھامے یہ افراد مشترکہ ذاتی مفاد کاکھیل کھیلتے رہے ہیں۔اسی طرح ایس ای سی پی کے بہت سے لوگوں نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ اگر چیئرمین کا ٹیلیفونک ریکارڈ چیک کیا جائے تو یہ بات سامنے آجائے گی کہ ان کے اور وفاقی وزیر کے درمیان تقریباً روزانہ گفتگو ہوتی ہے۔ شریف خاندان نے سول اداروں کو اپنی گرفت میں لے کر انہیں بے بس کیا ہوا تھا۔ اب سپریم کورٹ کے حکم سے جو تحقیقات کا آغاز ہوا ہے تو یہ گرفت کمزور پڑ رہی ہے اور لوٹ مار کی کتاب پرت در پرت کھل رہی ہے اور تفصیلات کے مطابق یہ پتہ چلتاہے کہ کس کس طرح اشرافیہ کا کلب احتساب کے تمام اداروں کو نکیل ڈال کر پاکستانی چراہ گاہ میں شکار کھیل رہا ہے۔
جب وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اقتدار میں آتے ہی بجلی فراہم کرنے والی مخصوص کمپنیوں کو اربوں روپے ادا کردیئے تھے اور آڈیٹر جنرل نے اس کے خلاف آواز بلند کی تھی تو انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ یہی صورتحال نادرا کے چیئرمین کےساتھ پیش آئی جنہیں دھمکیوں کے بعد نہ صرف عہدہ بلکہ ملک بھی چھوڑنا پڑا تھا۔یہاں سے ہم آتے ہیں اپنے باقی کرداروں کی طرف لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مافیا کی اس جدوجہد کی کہانی اور اپنے پیسے کے زور پر خرید و فروخت کے سلسلے اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ اگر ہم ہر کردار اور اس کے پلاٹ میں دی گئی تفصیل کے مطابق چلیں تو شایدہم اتنی کم جگہ میں انصاف ہی نہ کرسکیں۔ہمارے مرکزی کردار ایک ملک کے وزیراعظم ہیں جنہیں جب احتساب کی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کی چیخیں ان چیخوں سے بھی بلند ہوتی ہیں جو ان کے حواریوں سعد رفیق، طلال چوہدری، کرمانی اور سب سے بڑھ کر دانیال عزیز شامل رہے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنے خلاف ہونے والی کسی سازش کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس سازش میں یہ لوگ بعض اداروں کا نام لے رہے ہیں۔ اگر ہم کچھ صفحات پیچھے جائیں تو اس کہانی کے ایک کردار اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کے سلسلے میں پہلے ہی بیان حلفی دے چکے ہیں کہ انہوں نےہمارے مرکزی کردارکے لئے منی لانڈرنگ کی۔
میں یہاں تک ہی پہنچا ہوں کہ مجھے میرےدوست کہنے لگے ہیں کہ یہ کہانی تو انہو ںنے سن رکھی ہے۔ میں صرف نوٹس کے ذریعے انہیں اور کچھ نہ بتائوں بلکہ یہ بتائوں کہ میری کہانی کا انجام کیا ہونا ہے؟ کیا میرے ڈرامے کے اہم کردار کوپکڑ لیاجاتا ہے یا نہیں؟
میری کہانی میں تو اہم کردار کو پکڑ لیا جاتا ہے لیکن وہ چونکہ اہم عہدے پر فائز ہے چنانچہ وہ اپنی سزا کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ اس کے ساتھ جوکچھ ہوا اس میںریاست کے بعض ادارے، کچھ ریٹائرڈ جنرلز، ایک دو دوست ملک بھی شامل ہیں۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ ملک کے عوام ان اداروں اور بیرونی ممالک کی سازشوں کو ناکام بنا دیںگے۔ اس بڑھتے ہوئے انتشار سے تنگ آ کر ریاست کے بڑے ادارے کو آئین کو منسوخ اور اسمبلیوں کو فارغ کرنا پڑتا ہے اور ملک کےلئے ایک نئےآئین اور خاص طور پر صدارتی طرز حکومت کا انتخاب کرلیا جاتا ہے۔میری اس کہانی کے تمام کردار دراصل حقیقی لگتے ہیں لیکن اپنے انجام کی طرح شاید باقی بھی افسانہ ہی ہو لیکن میرے دوست یہ سب حقیقی سمجھ رہے ہیں۔ اللہ کرے انجام ایسا نہ ہو۔

تازہ ترین