• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کی مزید تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کی مدت میں اگر آخری لمحے توسیع نہ ہوئی تو یہ اپنی حتمی رپورٹ پیر 10 جولائی کو سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بنچ کو پیش کرے گی ، جس نے 20 اپریل 2017 کو پاناماکیس کا فیصلہ سنایا تھا اور اس فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ اس رپورٹ کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی بحران کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں ۔ یہ بحران کس نوعیت کا ہو گا ، اس بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ چاہے کچھ بھی ہو ، 10 جولائی کے بعد پاکستان کی سیاسی صورت حال ویسی نہیں رہے گی ، جیسی اس وقت ہے اور اس بات پر سب متفق ہیں ۔ پاکستان کی پولیٹکل کیمسٹری جاننے والے اس سیاسی بحران کی درست پیش گوئی کر سکتے ہیں ۔
جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ دو میں سے کسی ایک نتیجے سے متعلق ہو گی ۔ جے آئی ٹی یا تو اس نتیجے پر پہنچے گی کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے بچے بیرون ملک اثاثوں اور آف شور کمپنیوں میں لگائے جانے والے سرمائے کی’’ منی ٹریل ‘‘ نہیں دے سکے ہیں اور ان پر منی لانڈرنگ کا الزام درست ہے ۔ یا پھر جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچے گی کہ شریف خاندان نے منی ٹریل دے دیا ہے اور ان کے بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار جائز ہیں ۔ جے آئی ٹی یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ بعض معاملات میں تحقیقات مکمل نہیں کر سکی اور اس کی مقررہ مدت ختم ہو گئی ۔ لہذا ان معاملات میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے کیونکہ تادم تحریر جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے تین رکنی عمل درآمد بنچ کو اس طرح کی کسی بات سے آگاہ نہیں کیا ہے ۔
وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کے قائدین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور انصاف نہیں ہوا ۔ اگر وہ اس رپورٹ کو سپریم کورٹ کے بنچ میں چیلنج کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے رپورٹ کو تسلیم کر لیا ہے لہذا وہ رپورٹ کو چیلنج کرنے کی بجائے کوئی دوسرا قانونی آپشن اختیار کریں گے ، جس میں تکنیکی بنیاد پر جے آئی ٹی کو جانبدار ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن یہ قانونی اقدام شاید بعد از وقت ہو گا ۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے اچھا موقع یہ تھا ، جب جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے عمل درآمد بنچ میں شکایت دائر کی تھی اور کہا تھا کہ اس کے کام میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں ۔ جے آئی ٹی نے میڈیا مانیٹرنگ پر مبنی رپورٹس بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھیں ۔ جے آئی ٹی کا یہ اقدام مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے سنہری موقع تھا ۔ جے آئی ٹی کی اس شکایت پر مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم اگر کوشش کرتی تو جے آئی ٹی کو اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی ۔ ہو سکتا ہے کہ بعد میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت اسی معاملے کو آگے بڑھائے لیکن یہ بعد از وقت ہو گا ۔
مسلم لیگ (ن) کے پاس دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف رپورٹ آنے کی صورت میں سیاسی مہم چلائے ۔ ماضی میں پاکستان میں جو کچھ ہوا ، اس کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کے لئے اخلاقی اور قانونی جواز موجود ہے کہ وہ اسے سازش قرار دے لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی قوتوں کی اسے پہلے جیسی حمایت حاصل نہیں ہے ۔ 2014 ء میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مشترکہ دھرنے کو پارلیمنٹ میں موجود دیگر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی قوتوں کی سازش تسلیم کر لیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وہ کھڑی ہو گئی تھیں ۔ اسی طرح کی حمایت سے اب مسلم لیگ (ن) محروم ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) ، عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) اور مسلم لیگ (ن) کی دیگر حامی جماعتیں بھی اس صورت حال کو محتاط انداز میں سازش قرار دے رہی ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی بھی رہنما نے پاناما کیس اور جے آئی ٹی کے بارے میں واضح الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے ، انصاف اور میرٹ کے تقاضوں کے مطابق اور درست ہو رہا ہے تاہم پیپلز پارٹی اسے مکافات عمل قرار دے رہی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کا رخ جس طرح پیپلز پارٹی کی طرف موڑا گیا ، اس میں وزیر اعظم نواز شریف کی شاید منشاشامل نہ ہو لیکن اس سے وہ اس وقت پیپلز پارٹی کی سیاسی حمایت سے محروم ہو گئے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے لئےزیادہ بہتر موقع ہو گا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ آنے کی صورت میں لوگوں کو سڑکوں پر لے آئیں اور مسلم لیگ (ن) سیاسی دباؤ میں آکر اپنی مہم نہ چلا سکے ۔ اس صورت میں مسلم لیگ (ن) کے پاس ایک اور آپشن ہو گا کہ جب تک جے آئی ٹی کی رپورٹ پر وزیر اعظم اور دیگر فریقین کا موقف سنا جائے گا ، تب تک وہ ملک میں قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کر سکتی ہے ۔
یہ اعلان کرکے مسلم لیگ (ن) عوام میں چلی جائے گی اور کسی حد تک حالات کو اپنے لئے سازگار بنا سکے گی ۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے حق میں آنے کی صورت میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان پاکستان تحریک انصاف کا ہو گا ۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ اس رپورٹ کو تسلیم نہ کرے اور لوگوں کو باہر لے آئے لیکن یہ صورت حال اس اسکیم کے برعکس ہو گی ، جسے مسلم لیگ (ن) سازش قرار دے رہی ہے ۔ کچھ حلقے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ پارا چنار میں دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ملاقات کے لئےیا تو آرمی چیف گئے اور سیاستدانوں میں وہاں صرف عمران خان کو جانے دیا گیا ۔ پیپلز پارٹی اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے موقف کی حامی ہے لیکن وہ بوجوہ اس کے ریسکیو کے لئے آگے نہیں بڑھ رہی ۔ عمران خان کے پاس عدلیہ کے خلاف احتجاج کا اخلاقی جواز نہیں ہو گا ۔ عمران خان کو اپنی سیاسی جماعت کو بچانا بھی مشکل ہو جائے گا ۔ پاکستان میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں اور تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عمران خان کو اس مشکل میں نہیں ڈالا جائے گا کیونکہ ان پر بہت سی قوتوں کا انحصار ہے ۔
لیکن مسلم لیگ (ن) جس سازش کا تذکرہ کر رہی ہے اور مختلف حلقے جس بحران کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں ، اس مبینہ سازش اور امکانی بحران کو علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھنا چاہئے ۔ مجھے بحران اس سے کہیں زیادہ اور گمبھیر نظر آ رہا ہے ، جس کی پیش گوئی کی جا رہی ہے ۔ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل چکا ہے ۔ اس نے اس خطے میں امریکی موجودگی کےلئے جواز ختم کر دیا ہے ۔ امریکہ اور اس کے حامی اس بحران میں مزید شدت پیدا کریں گے ۔ معاملات ان کے ہاتھ میں بھی نہیں ہوں گے ، جن پر مسلم لیگ (ن) والے سازش کا الزام عائد کر رہے ہیں اور حالات ان لوگوں کے کنٹرول میں بھی نہیں ہوں گے ، جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے لئے سیاسی طور پر سارے راستے صاف ہو گئے ہیں اور ان کے مقابلے میں کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ سب کچھ انتہائی نازک مرحلے پر ہو رہا ہے ۔

تازہ ترین