• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب آ پ یہ کالم پڑھ رہے ہونگے، پاناما کیس کی مزید تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ میں پیش کر رہی ہو گی اور ملک کا سیاسی ماحول بہت گرم ہو چکا ہو گا۔ پاناما کیس اپنے کلائمیکس پر ہو گا اور ملک ایک ٹرننگ پوائنٹ پر آچکا ہو گا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے اگرچہ فوری طور پر وہ کچھ نہیں ہونے لگے، جس کی فریقین پہلے سے توقع کئےبیٹھے ہیں۔ میری دانست میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ جولائی کے آخر تک آ جائیگا اس سے پہلے ہی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ حکومت کے سب سے سینئر وزراءنے کل رات طویل مشاورت کے بعد پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ اگر قطری شہزادے کا انٹرویو نہیں لیا گیا تو JITکی رپورٹ قبول نہیں کرینگے۔ انکی جو حالت تھی اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں آنیوالا سیاسی منظر نامہ نظر آ رہا ہے انہوں نے اب راہِ فرار اختیار کی۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس حتمی فیصلے میں مزید تاخیر ہو گی یا مزید تحقیقات کیلئے معاملہ ٹرائل کورٹ میں جائیگا۔ وہ غلط فہمی کا شکار ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ چاہے وزیر اعظم کیخلاف ہو یا حمایت میں، بہر صورت یہ رپورٹ ملکی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو گی۔
پاناما کیس میں اب تک جو کچھ ہوا ہے، وہ غیر معمولی اور غیر متوقع ہے۔ میں اسے قانون اور جمہوریت کی فتح تصور کرتا ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے پورے سیاسی کیریئر میں ان کیلئے ایسی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ پاکستان جیسے ملک میں وہ تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ ان کی طاقت کا غلط اندازہ نہیں لگانا چاہئے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے، جو پاکستان میں بلا امتیاز احتساب کی بنیاد بنے گا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کیخلاف پاناما کیس کے دوران بعض طاقتور لوگوں کیخلاف بھی کیس چل رہے تھے لیکن ان پر میڈیا اور احتساب کے حامی حلقوں نے آنکھیں بند کئے رکھیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک وزیر اعظم کو عدالت نے ایک منٹ میں نااہل قرار دے دیا تھا۔ وہ عدالت میں گئے تھے تو وزیر اعظم تھے۔ عدالت سے باہر نکلے تو وزیر اعظم نہیں رہے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد بھی ملک میں بلا امتیاز احتساب کا نظام قائم نہ ہو سکا۔
میاں محمد نواز شریف کے خلاف پاناما کیس صرف وزیر اعظم کا ٹرائل نہیں ہے بلکہ یہ اس شخص کا ٹرائل ہے، جن کے بارے میں آج بھی عام تاثر یہ ہے کہ ان کا کوئی بھی احتساب نہیں کر سکتا۔ 1980 ء اور 1990 ء کے عشرے کے دوران وہ پاکستان پیپلز پارٹی مخالف سیاست دانوں میں سب سے زیادہ اہم اور نمایاں تھے اور پیپلز پارٹی والے انہیں اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی چہرہ قرار دیتے تھے۔ میاں محمد نواز شریف نے 1990 ء کے عشرے میں اپنی دو حکومتوں کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنماؤں خصوصاً محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے جو مقدمات بنائے، ان کی وجہ سے نہ صرف پیپلز پارٹی کے قائدین نے عدالتوں میں بہت مشکلات کا سامنا کیا بلکہ اس مقدمے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نااہل ہو گئیں اور پیپلز پارٹی بطور سیاسی جماعت کالعدم ہو گئی۔ انہیں پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے نام سے ایک جماعت بنانی پڑی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں کے دوران میاں محمد نواز شریف کیخلاف کرپشن کے جو مقدمات بنے، ان پر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ پاکستان کے تمام ریاستی ادارے خاموش رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں کی برطرفی کو عدالتوں نے جائز قرار دیا اور میاں محمد نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کو عدالت نے غلط اقدام قرار دیا حالانکہ برطرفی کے جواز یکساں تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور ان کیخلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا۔ بغاوت کے اس مقدمے میں میاں نواز شریف کو صرف سزائے قید ہوئی اور کچھ عرصے بعد انہیں اہل خانہ کے ساتھ سعودی عرب جانے دیا گیا۔ یہ صرف نواز شریف کیلئے تھا۔ پھر میاں محمد نواز شریف کی سزاکو کالعدم قرار دے کر انہیں تیسری بار وزیر اعظم بننے کا موقع فراہم کیا گیا۔ پاناما کیس میں اسی نواز شریف کا ٹرائل ہورہا ہے، جو یقینا غیر معمولی بات ہے خصوصاَ پاکستان جیسے ملک میں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ چاہے کچھ بھی ہو، پاناما کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں سے دو جج صاحبان میاںمحمد نواز شریف کو نااہل قرار دے چکے ہیں اور تین ججوںنے بھی کلین چٹ نہیں دی بلکہ مزید تفتیش کی بات کی۔
اس فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران جو کچھ ہوا، وہ پہلے میاں محمد نواز شریف اور انکے اہل خانہ کے ساتھ کبھی نہیں ہوا۔ انکا میڈیا اور سیاسی طور پر بہت explosure ہوا ہے۔ ایسی صورت حال کا انہیں پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مسئلہ ایک تھا money trail انھوں نے نہیں دیا۔ قانون نے اپنا راستہ اختیار کیا ہے، جو پہلے صرف دوسروں کیلئے ہوتا تھا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں لیکن یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ دنیا بدل چکی ہے آج 1990ء نہیں ہے آج اسٹیبلشمنٹ بھی عوامی رائے کے خلاف نہیں جا سکتی۔ کرپشن اور بیڈ گورننس کو support نہیںکر سکتی۔ اسٹیبلشمنٹ داخلی بحرانوں کا شکار ہو سکتی ہے اور وہ 1970 ءیا 1990 ء کے عشروں والی اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست میں دراصل ایک نیا فیکٹر سامنے آیا ہے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں اور اب نواز شریف کی جگہ اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پناہی کر رہی ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے حالیہ دور حکومت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی کیساتھ گزاری مگرPPP کی کرپشن، اقربا پروری اور بیڈ گورننس نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبورکیا۔ کوئی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت اپنی انتہا پر ہے اور اس مقدمے کے فیصلے کے بعد کوئی دوسرا نہیںٹھہر پائیگا۔ دنیا بھر کی اسٹیبلشمنٹ کسی بھی مقبول سیاسی رہنما کیساتھ نہیں چل سکتیں۔ بہرحال پاکستان کی سیاست میں جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے، اسکا فائدہ دیگر قوتوں کی بجائے عمران خان کو کیوں ہو رہا ہے ؟ دیگر اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا ر ہیں ؟ اسلئے کہ عمران خان دنیا میں آنیوالی تبدیلی کا مطالعہ کرتے ہیںانتھک محنت کرتے ہیں اور کسی کرپشن، اقرباپروری اور دوسرے الزام سے بری ہیں۔ آج سب کی نظریں ان ہی پر ہیں۔آج کی دنیا جاہلوں کیلئے نہیں ہے اور نہ ہی صرف سازشوں سے اقتدار رکھ سکتے ہیں۔ آج کے دور میں امریکہ میں اسٹیبلشمنٹ، روس میں پیوٹن، جرمنی کی اینجلا مرکل، چین کے چی زنپنگ اور ایرانی حسن روحانی جیسے لوگوں کا دور ہے۔جب 2014 ء میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے نواز حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور اس حکومت کو انتخابات میں دھاندلی کی پیداوار قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ دوبارہ انتخابات کرائے جائیں، اس وقت دیگر اپوزیشن جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر نے حکومت کا ساتھ دیا تھا اور اس دھرنے کو غیر سیاسی قوتوں کی سازش قرار دیا تھا لیکن اب پاناما کیس میں مسلم لیگ (ن) کے لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سازش ہو رہی ہے لیکن ان کا ساتھ دینے کیلئے کوئی تیا رنہیں ہے۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ میاں محمد نواز شریف اس دوران معاملات کو سمجھ نہیں سکے۔ میرا خیال یہ ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ، دیگر سیاسی قائدین بھی حالات کا ادراک نہیں کر پا رہے ہیں۔ آخری معرکہ میں آصف زرداری، فضل الرحمٰن، اسفندیار ولی، محمود اچکزئی اور ایم کیو ایم عمران خان اور شیخ رشیدکیخلاف صف آرا ہوں گے۔ خطے اور عالمی سطح پر ہونیوالی تبدیلیاں پاکستان کی سیاسی تبدیلیوں میں اثر پذیر ہونے کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ چاہے کچھ بھی ہو، پاکستان ایک اہم موڑ ( ٹرننگ پوائنٹ ) پر آ گیا ہے۔
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گیا تو ہوا سے شکایتیں کیسی!

تازہ ترین