• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں اپنی بیٹی حیا کی گریجویشن تقریب میں شرکت کیلئے اہلیہ نورین اور بڑی بیٹی انعم کے ہمراہ کینیڈا کے شہر مونٹریال جانے کا اتفاق ہوا۔ گریجویشن تقریب طلباو طالبات اور اُن کے والدین کیلئے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ میں ہمیشہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کیلئے فیملی کے ہمراہ گریجویشن تقریب میں شرکت کرتا ہوں۔ میرے بیٹے عمیر نے بینٹ لے یونیورسٹی امریکہ سے گریجویشن اور ہاورڈ یونیورسٹی بوسٹن سے فنانس میں ماسٹرز اور بڑی بیٹی انعم نے کارڈف یونیورسٹی برطانیہ سے بزنس مینجمنٹ میں ماسٹرز جبکہ حیا نے میک گل یونیورسٹی مانٹریال سے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ اسٹیڈیز میں گریجویشن کیا ہے۔ گریجویشن تقریب میں شرکت کیلئے جب ہم پنڈال میں داخل ہوئے تو وہاں بڑی تعداد میں مسلمان طلبا و طالبات نظر آئے۔ تقریب میں ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ بہرام آواری اور اُن کی اہلیہ سے بھی ملاقات ہوئی جو اپنے پوتے کی گریجویشن کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے جبکہ تقریب میں کے الیکٹرک کے سابق سی ای او نیئر اپنی اہلیہ اور بیٹی جو میری بیٹی کی روم میٹ بھی ہے، کے ہمراہ موجود تھے۔
میک گل یونیورسٹی کا شمار کینیڈا کی ممتاز یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے، یہاں بڑی تعداد میں پاکستانی طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جن کا جی پی گریڈ دیگر طلباکے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہے۔ یونیورسٹی کا قیام 1821ء میں عمل میں آیا اور اس کا مرکزی کیمپس مونٹریال کے وسط میں ہے۔ یہ یونیورسٹی حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل یونیورسٹی لیڈرز فورم (GULF) جس میں دنیا کی 26 بڑی یونیورسٹیاں شامل ہیں، میں شامل کی گئی ہے، اس لئے یہاں داخلے کا معیار انتہائی سخت ہے۔ تقریب میں یونیورسٹی کے چانسلر مائیکل میگ ہن، بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین اسٹیورٹ کوبیٹ، پرنسپل اور وائس چانسلر پروفیسر سوزان فوٹیئر نے فیکلٹی ممبران کے ساتھ شرکت کی۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز قومی ترانے سے ہوا جس کے بعد المنائی نے یونیورسٹی کے بارے میں دلچسپ یادیں شرکاء سے شیئر کیں اور بعد ازاں طلباء و طالبات میں اسناد تقسیم کی گئیں۔ اس موقع پر طلباء و طالبات اور ان کے والدین کے چہروں پر خوشی نمایاں تھی۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل زیادہ تر پاکستانی طلباء ملازمت اور تجربہ حاصل کرنے کیلئے ٹورنٹو منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے تھے کیونکہ مونٹریال میں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے جس کے باعث یہاں پاکستانیوں کیلئے ملازمت کے مواقع انتہائی محدود ہیں۔ مانٹریال میں قیام کے دوران یونیورسٹی کے قریب منعقدہ گرینڈ پری ریس میں دنیا کی جدید اسپورٹس کاریں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی روز ٹورنٹو میں قیام پذیر اپنے دوست نوید بخاری سے ملاقات ہوئی جو ٹورنٹو سے بذریعہ کار 6 گھنٹے کا سفر طے کرکے مجھ سے ملنے مونٹریال آئے تھے کیونکہ اگلی صبح مجھے ہیوسٹن جانا تھا جہاں میری بہن اور بہنوئی مقیم ہیں۔
ہیوسٹن امریکی ریاست ٹیکساس کا سب سے بڑا اور امریکہ کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ 1600 مربع کلومیٹر پھیلے اس شہر کی آبادی 2.3 ملین ہے۔ ہیوسٹن کی جی ڈی پی 442.4 ارب ڈالر ہے جو آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، متحدہ عرب امارات اور پاکستان سے زیادہ ہے۔ یہ شہر طیارہ سازی اور تیل کی صنعتوں کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے جبکہ جہازوں کی گزرگاہ کے باعث اسے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ ہیوسٹن بندرگاہ بین الاقوامی تجارت کے لحاظ سے سرفہرست ہے جس کا شمار دنیا کی چھٹی بڑی بندرگاہ میں ہوتا ہے۔ ہیوسٹن دنیا میں انرجی کا حب مانا جاتا ہے، یہاں دنیا کی تمام معروف انرجی کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز قائم ہیں جبکہ 20 بڑی انجینئرنگ اور آرکیٹیکچر کمپنیوں سمیت تقریباً 3 ہزار بین الاقوامی کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں۔ ہیوسٹن کی مجموعی تجارت 268 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ یہاں تقریباً ایک لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جن میں زیادہ تر بزنس مین، ڈاکٹرز، انجینئرز اور بینکرز ہیں جبکہ بیشتر پاکستانی بزنس مین پیٹرول اسٹیشن کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ پاکستان اور ہیوسٹن کے مابین مجموعی تجارت 371.7 ملین ڈالر ہے جس میں پاکستان سے ہیوسٹن ایکسپورٹ 104 ملین ڈالر اور ہیوسٹن سے پاکستان ایکسپورٹ 268 ملین ڈالر ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2007ء میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ہیوسٹن کا جڑواں شہر قرار دیا جاچکا ہے۔
میرا یہ معمول ہے کہ جب بھی کسی ملک کا دورہ کرتا ہوں تو وہاں متعین پاکستان کے سفیر اور کمرشل قونصلرز سے ضرور ملاقات کرتا ہوں۔ اس بار ہیوسٹن میں پاکستان کی قونصل جنرل عائشہ فاروقی اور کمرشل قونصلر ڈاکٹر محمد خرم سے باہمی تجارت و سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستانی قونصلیٹ میں تبادلہ خیال ہوا۔ اسی روز پیپلزپارٹی ہیوسٹن کے صدر ریاض حسین نے عشایئے کا اہتمام کیا جس میں پاکستان چیمبرز آف کامرس امریکہ کے چیئرمین گلفراز خان، ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹی ایسوسی ایشن کے صدر محمد سعید شیخ، آغا خان کمیونٹی کے روح رواں حسن علی مومن، پاکستان ایسوسی ایشن ہیوسٹن کے صدر میاں نذیر، مقامی ریڈیو اور ٹی وی چینلز کے سربراہان اور ہیوسٹن میں مقیم پاکستانیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ دورانِ قیام ایف ایم ریڈیو چینل 105.3 نے میرا براہ راست انٹرویو نشر کیا جس کی میزبان لینا شاہ نے زیادہ تر گفتگو پاناما کیس جے آئی ٹی پر کی۔ میری اگلی منزل ترکی تھی جہاں مجھے استنبول میں منعقدہ ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز (FICAC) کی بورڈ میٹنگ میں شرکت کرنا تھی۔ ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز دنیا بھر کے اعزازی قونصل جنرلز کی نمائندہ ایسوسی ایشن ہے جو اقوام متحدہ کے ویانا کنونشن قونصلر ریلیشنز 1963ء کے تحت خدمات انجام دے رہی ہے۔ فیڈریشن کا ہیڈ کوارٹر برسلز میں ہے اور اس کا اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ساتھ الحاق ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے ملک کی نمائندگی کیلئے مختلف ممالک میں اعزازی قونصل جنرل تعینات کرتے ہیں جن کا کام دونوں ممالک کی باہمی تجارت و سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ اعزازی قونصل جنرل کسی بزنس مین یا اہم شخصیت کو بنایا جاتا ہے جسے دونوں ممالک کی حکومتیں باہمی رضامندی سے نامزد کرتی ہیں۔ یمن نے پاکستان کی رضامندی سے مجھے کراچی میں یمن کا اعزازی قونصل جنرل متعین کیا ہے اور میں قونصلر کارپس سندھ کے ڈین کی حیثیت سے ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز کے بورڈ پر تین بار ڈائریکٹر منتخب ہوچکا ہوں جبکہ حال ہی میں مجھے جنوبی ایشیا ریجن کا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے جو پاکستان کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میٹنگ کے دوران ترکی سے تعلق رکھنے والے ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز کے صدر اکوت ایکن نے استنبول کے علاقے بوس فیرس میں واقع اپنی عالیشان اور خوبصورت رہائش گاہ پر بورڈ ڈائریکٹرز کے اعزاز میں عشایئے کا اہتمام کیا جس میں اقوام متحدہ کی پرنسز نسرین نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ عشایئے میں استنبول میں مقیم غیر ملکی سفیروں کے علاوہ پاکستان کے قونصل جنرل ڈاکٹر جنید خان سے بھی ملاقات ہوئی جن سے پاک ترک فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر تفصیلی گفتگو ہوئی جو آئندہ کالم میں قارئین سے شیئر کروں گا۔

تازہ ترین