• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جذبے کا رنگ نہیں ہوتا مگر جب یہ رنگ دکھاتا ہے تو زندگی میں رنگ بھر دیتا ہے اور اس رنگ سے جو خود اعتمادی اور توانائی پیدا ہوتی ہے وہ قوموں کی تاریخ بدل دیتی ہے یہی وہ اعتماد ہوتا ہے جو انہونی کو ہونی کر دیتا ہے ایک انسان خواب لے کر اٹھتا ہے اس کی تعبیر کو اپنی تقدیر پر نہیں چھوڑتا بلکہ اس میں اپنے پسینے اور خون کا رنگ بھر دیتا ہے وہ کنارے پر بیٹھ کر موجوں کے تھمنے کا انتظار نہیں کرتا پہلی فرصت میں ہی کود جاتا ہے۔ خود کوزندہ رکھنے کے لئے فنا کے راستے پر چلتا ہے، موت سے دست و گریباں ہوتا ہے اور اسے چت کر دیتا ہے اگر وہ اپنے جذبے کے ساتھ اپنے مقصد میں کامیاب رہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان تخلیق کرتا ہے اگر ہٹ جائے تو اس کا آدھا حصہ گنوا بیٹھتا ہے۔ یہ جذبہ ہی تھا جس نے ہمیں انگریز کی غلامی کا طوق گلے سے اتارپھینکنے کی ہمت دی اور یہ جذبہ ہی تھا جس نے اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے کے لئے متحدہ ہندوستان کے بجائے پاکستان کی تشکیل کانقشہ کھینچا اور پاکستان معرض وجود میں آیا مگر ہم عاقبت نااندیشوں نے اس کی قدر نہ کی اور ارض وطن کے وسائل پر ان بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے جو ازل کے بھوکے ہوں، جن کے منہ سے بے حِسی کی رال ٹپکتی ہو، جن کی خصلت میں حیوانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم 47 ء میں جہاں کھڑے تھے اگلی صدی کے 17 ء میں ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ ہم نے ماضی کے مقابلے میں ظاہری ترقی کی ہے مگر آج ہمارا بچہ بچہ قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم ہر سال نئے نوٹ چھاپ کر جس ترقی کا ذکر چھیڑ بیٹھتے ہیں وہ اخلاقی تنزلی کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ 47 ء میں قربانی دینے والے بچے کھچے لوگ 70 برس بعد بھی قربانی ہی دیتے چلے آرہے ہیں۔ اس دھرتی کو اپنا خون دینے والے آج بھی اپنی رگوں سے قطرہ قطرہ لہو ٹپکا رہے ہیں، جنہوں نے عہدِ وفا نبھانے کی قسم اٹھائی تھی ان کی نسلیں آج بھی مٹی کا قرض اتار رہی ہیں۔47 ء میں لوٹنے والے آج بھی مقتدر ہیں کل کے محکوم آج بھی محکوم ہیں جو پاکستان کے مخالف ہیں ان کی اولادیں آج بھی مخالف ہیں جن کے گلے میں اقتدارکی گھنٹی باندھ دی جائے وہ اس وقت تک چپ رہتے ہیں جب تک اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں،47 ء میں سوچ کا محور صرف پاکستان کا حصول تھا۔ لیکن آج پاکستان انتشار و افتراق کے شکنجے میں بری طرح جکڑا نظر آتا ہے۔ ہم اپنی بنیادیں کھوکھلی کرکے کیا ترقی کا سفر کررہے ہیں؟ عجب تماشا ہے جو حکمران پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کا دعوے دار ہے آج کٹہرے میں کھڑا ہے۔ ہماری سڑکیں پختہ ہوتی گئیں مگر ضمیر کو جانے والی پگڈنڈیاں خستہ حال ہوگئیں، ہمارے جذبے کے بخیے ادھڑ گئے، امانت کے دیانت کے تاروپور بکھر گئے، ہم عجیب مخمصے کا شکار ہیں، ہماری روایات اس دھول میں دب چکی ہیں، جو بے حِسی اور ذاتی مفادات کے میدان میں سرپٹ دوڑنے سے اٹھی ہم اپنے ہاتھوں اپنے سر میں خاک ڈال کر اپنے قدموں سے ذلت کی خاک چھان رہے ہیں۔ ایسے عالم میں کیا یہ کہنا درست ہے کہ ہم ترقی کررہے ہیں، نہیں ہم دشمن کے ہتھیار پر بھروسہ کر بیٹھے ہیں، ترقی کرنے کے لئے ہمیں اپنے ہتھیاروں میں خود کفیل ہونا ہوگا۔ ہم سب کو 47 ء والے جذبے کے ساتھ محنت ، دیانت اور امانت کی فیکٹریاں کھولنا ہوں گی۔
آج ہم ایٹمی قوت ہیں مگر شعوری اور معاشی طور پر اتنے مضبوط نہیں، ہمیشہ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو سیاسی محاذ پر شکست کے خوف سے ایسا الجھتے ہیں کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے۔ یہ احساس گزشتہ روز حویلی بہادر شاہ ایل این جی پاور پلانٹ کے پہلے یونٹ کی افتتاحی تقریب کے دوران زیادہ گہرا ہوا کہ ہم کس گرداب میں پھنس گئے۔ آگے کیوں نہیں بڑھتے، اگرچہ اس تقریب میں خوشی کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ قوم کو روشنی کی کرن دکھائی جائے۔760 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے اضافے سے امید کی ایک کرن پیدا ہو مگر تقریب کے شرکاء کی سنجیدگی ، فکر مندی، چہروں پر بظاہر عیاں مایوسی کے سائے منڈلاتے نظر آئے، اس ماحول میں بھی وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کا حوصلہ ، ہمت کہیں کم ہوتا نظرنہیں آیا۔ تقریب کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف مسلسل ان کی حوصلہ افزائی کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ یہ وہی مقام تھا جہاں 21 ماہ قبل ویرانی تھی، گھپ اندھیرا تھا، ہر طرف ایک بنجر میدان مگر آج یہاں زندگی ہے، امید ہے اور روشنی ہے۔ یہ دنیا کا واحد پاور پلانٹ ہے جو اتنی قلیل ریکارڈ مدت میں مقرر وقت سے پہلے پیداواری مراحل طے کر گیا ۔ اتنی مدت میں تو ایک کنال کا گھر بھی تعمیر نہیں ہوتا۔اس عالمی ریکارڈ کو قائم کرنے میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کا وژن وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا عزم ان کی ٹیم کا جوش و جذبہ شامل ہے۔
آج 10جولائی فیصلہ کن معرکے کا دن، پانامہ کیس جے آئی ٹی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی، دوسری طرف وزیراعظم پاکستان دریائے سندھ پر4500 میگاواٹ داسو پاور پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس پاور پروجیکٹ کی پیداوار تربیلا اور منگلا ڈیم کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہوگی۔ سوچنے کی بات صرف اتنی ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تناظر میں انصاف پر مبنی جو بھی فیصلہ ہو وہ جمہوریت اور ترقی کے سفر پر کسی صورت اثر انداز نہیں ہونا چاہئے۔

تازہ ترین