• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید الفطر سے ایک روز پہلے دل دہلانے دینے والے احمد پور شرقیہ کے سانحے میں اب تک 218افراد جابحق ہوچکے ہیں جبکہ 53زخمیوں میں سے کئی ایک کی حالت تشویشناک اور 22افراد لاپتہ ہیں۔ دو سوسے زائد گھراجڑ گئے ہیں ۔ یہ ایسا دل خراش سانحہ ہے کہ خوشی بھی غم میں بدل گئی ۔ یہ سانحہ کیسے پیش آیا ، اس کا ذمہ دار کون کون ہے۔ اس سانحے نے بہت سے بڑے بڑے چہرے، سسٹم بے نقاب اور گڈ گورنس کے تمام پول کھول دیئے ، صحت اور اسپتا لوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے تمام دعوے زمیں بوس ہوگئے، یہ سب آگے چل کر لیکن پہلے سمجھنے کی بات ہے کہ یہ سانحہ کیوں اور کیسے پیش آیا۔ کراچی سے 14ٹائروںوالا ایک ٹینکر50ہزار لیٹر پٹرول لیکر 35 کلو میٹر کی رفتار سے چلتا ہوا احمد پور شرقیہ کی حدود میں داخل ہوتا ہے ، آگے ایک بس نے بریک لگائی اور یہ ٹینکر اپنی اہلیت سے زیادہ وزن رکھنے کیوجہ سے غیر متوازی ہو کر الٹ گیا ، اس ٹینکر کو اتنے لمبے فاصلے سے صرف ایک ڈرائیور چلا رہا تھا کوئی نہیں جانتا کہ اس ڈرائیور کی صحت کیسی تھی ، اسکی نیند پوری ہوئی تھی یا نہیں، اسکی ذہنی کیفیت کیا تھی، کیونکہ وہ بھی ہلاک ہوچکا ہے ، جب ٹینکر الٹا تو پٹرول گرنا شروع ہوگیا ایسا لگ رہا تھا جیسے تیل کا کنواں نکل آیا ہو ، شہر سے بچے،عورتیں، بڑے ، بوڑھے ، سب برتن اٹھائے پٹرول اکٹھا کرتے رہے ، یہ سلسلہ کوئی ایک گھنٹہ جاری رہا ، اسی دوران کسی نے سگریٹ پھینکا تو ایسی آگ پھیلی کہ جنگل میں نہیں پھیلتی، ٹینکر بھی پھٹ گیا اور آگ کے شعلوں میں انسان کوئلہ بن گئے قریب سے گزرنے والی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں بھی جل کر راکھ ہو گئیں۔ اس سانحہ میں مشینری توپہچانی جاسکتی تھی مگر انسان نہیں، بدقسمتی دیکھئے کہ موٹروے اور مقامی پولیس بھی وہاں بہت دیر سے پہنچی ، کسی نے یہ ذمہ داری ہی محسوس نہ کی کہ لالچ یا غربت کے مارے لوگوں کو منع کریں، پٹرول سے دُور رکھیں پھر کیا تھا ، فائر بریگیڈ آگ بجھانے آئے بھی تو انکے پاس بہت قلیل مقدار میں آگ بجھانیوالا کیمیکل تھا ،گو ایمبولنیس پہنچیں مگر انسانوں کی اکثریت تو جل کر راکھ ہو چکی تھی ۔ قریب ترین بہاولپور کا اسپتال ہے، بہاولپور ایک ریاست رہی ہے جہاں کا وکٹوریہ اسپتال بہت پرانا ہے مگر افسوس کہ وہاں کوئی برن یونٹ ہی نہیں۔ پھر کچھ جلنے والوں کو نشتر اسپتال ملتان اور کچھ کو جناح اسپتال لاہور منتقل کیا گیا ، لیکن افسوس کہ ہم اکثریت کو بچا نہ سکے۔
اس سانحہ کے سنگین حقائق نے پورسے نظام پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔گو حکومت نے ہلاک ہونیوالے افراد کے ورثا کو 20لاکھ روپے اور زخمیوں کو 10لاکھ فی کس دینے کا اعلان کیا ہے ، موٹر وے پولیس کے 7اہلکاروں کو فوری معطل کر کے چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے ۔ لیکن اس سے جاںبحق ہونیوالے نہ تو واپس آسکتے ہیں اور نہ ہی حکمراں اپنی نااہلی چھا سکتے ہیں ۔ یہ سانحہ پنجاب کے علاقے میں پیش آیا اور پنجاب حکومت وہ ہے جو طبی سہولتوں کو اولین ترجیح دینے کے اونچے اونچے دعوے کرتی ہے اور ان دعوئوں کو سچ ثابت کرنے کیلئے اشتہارات کے ذریعے کریڈٹ بھی لیتی ہے مگر عملی صورتحال بالکل برعکس ہے کیونکہ پنجاب بھر میں بڑے بڑے فضائی و زمینی حادثات ، آگ کے نتیجے میں مسخ اور جلی ہوئی انسانی لاشوں کی شناخت کیلئے ڈیزاسٹر ویکٹم اڈنٹیفیکیشن یونٹ کا وجود ہی نہیں ، اربوں روپے ’’اللّے تلّلوں ‘‘ میں ضائع کر دیئے جاتے ہیں مگر دس کروڑ کا یہ یونٹ نہیں لگ سکتا۔ مسخ شدہ لاشوں کو ڈی این اے یا دانتوں سے شناخت کیا جاتا ہے۔ پنجاب بھر کے اسپتالوں میں برن یونٹ ہی نہیں۔ نشتر اسپتال ملتان میں 2008ء میں اٹلی کی حکومت کے تعاون سے ایک برن یونٹ کی تعمیر شروع ہوئی جو2013ء میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا گیا مگر افسوس کہ یہاں صرف40بیڈز آپریشنل ہیں، آئی سی یو میں صرف 12مریضوں کیلئے سہولت ہے جبکہ صرف دو ٹیسٹ سی بی سی اور ایل ایف ٹی ہو سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اس کے افتتاح کیلئے پانچ مرتبہ تیاریاں کروائیں مگر افتتاح نہ ہوسکا چونکہ وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے یہ پرویز الٰہی کا منصوبہ تھا جس کی سزا عوام کو دی جارہی ہے ۔ لاہور جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے وہاں کے بڑے اسپتالوں کی صورتحال یہ ہے کہ جناح اسپتال میں ایک برن یونٹ عرصہ دراز سے مکمل ہوچکا ہے مگر اس کو کئی سال صرف اسلئے آپریشنل نہ کیا گیا کہ یہ سابق وزیراعلیٰ کا منصوبہ تھا ،یہ بحث پھر کسی وقت کی جائیگی کہ اسکی تعمیر میں کس قدر کرپشن ہوئی اور کون کون ملوث تھا۔ اس وقت اس برن یونٹ کا کچھ حصہ مخیر حضرات کے تعاون سے کام کررہا ہے یہاں نہ ضروری مشینری ہے نہ ہی اس کو چلانیوالے ماہر جبکہ بیسیوں اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔ جبکہ چار منزلہ عمارت میں ابھی تک لفٹ ہی نہیں لگائی گئی۔ میو اسپتال پنجاب کا سب سے بڑا اسپتال ہے جہاں صرف 11بیڈز کا برن یونٹ، اسی طرح گنگا رام اسپتال میں 8بیڈز کا برن یونٹ ہے ۔ سروسز اسپتال ، جنرل اسپتال ، چلڈرن و دیگر کسی اسپتال میں برن یونٹ سرے سے موجود ہی نہیں۔ شیخ زید اسپتال میں برن یونٹ تو موجود ہے مگر اسپتال کی انتظامیہ کی چپقلش کیوجہ سے یہ بند پڑا ہوا ہے۔ایک تو اسپتال میں برن یونٹ نہیں پھر جلے ہوئے مریضوں کیلئے علیحدہ وارڈز ، اینٹی بائیوٹک ٹب نہلانے کیلئے ،جراثیم کش پٹیاں تک میسر نہیں، کلچر سین نیو علاج نہ کرنے اور مریض کو جنرل وارڈز میں رکھے جانے کیوجہ سے 90فیصد مریض انتقال کرجاتے ہیں۔ جہاں تک جنوبی پنجاب کا تعلق ہے گزشتہ9برس کے صحت کے بجٹ میں صرف 12.78 فیصد مختص کیا گیا ۔ وہاں کے اسپتالوں اور بنیادی مراکز صحت کی تعمیر ومرمت کیلئے آٹھ برس میں 9بار سمری تیار ہوئی مگر نتیجہ صفر رہا۔ محکمہ خزانہ سے حاصل معلومات اور سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ صحت کے فنڈز لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی کے میگا پروجیکٹس پرلگا دیئے گئے۔ اس ساری صورتحال کے بعد اٹھنے والے سوالات کے جوابات حکمرانوں اور متعلقہ محکموں کو دینے ہونگے اور انکی روشنی میں متعلقہ افراد کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں سخت سزائیں دینی چاہئیں —پچاس ہزار لیٹر پٹرول لے کر ٹینکر سفر کرتا ہوا بہاولپور پہنچ گیا ۔ نیشنل ہائی وے کے عملے ، ٹریفک پولیس نے کیوں چیک نہ کیا کہ اسکے 14ٹائرتھے جبکہ50ہزار لیٹر پٹرول کیلئے 22ٹائر ہونا ضروری ہے۔ کمپنی نے یہ ٹائر چیک کئے بغیر 50ہزار لیٹر پٹرول کیوں ڈالا ۔ صرف ایک ڈرائیو کے رحم و کرم پر یہ ٹینکر تھا، کیا قانون میں اتنے لمبے سفر کیلئے اسطرح ایک ڈرائیور کی اجازت ہے؟ قانون میں صرف 5سو روپے جرمانے کی سزا ہے کیا 1983ء کا پیٹرولیم ایکٹ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں؟ اس ٹینکر کی حفاظتی سیلیں کیوں غائب تھیں؟ یہ ٹینکر کسی پرائیویٹ کمپنی کا تھا ۔ جس میں 36لاکھ روپے سے زائد کا پٹرول تھا ، کیا کسی نے پٹرول چوری چھپانے کیلئے جان بوجھ کر الٹاتو نہیں ؟کیا یہ ٹینکر اتنے لمبے سفر کے قابل تھا، گاڑیوں کی تشخیص کس کی ذمہ داری ہے؟ عملے کی صحت اور فٹنس کی چیکنگ کا ذمہ دار کونسا محکمہ ہے؟ کیا اس نے اپنی یہ ذمہ داری پوری کی؟ ایسے ٹینکر ز کے شہر میں داخلے کے قوانین کیا ہیں؟ عوام جو لالچ یا غربت کی وجہ سے پٹرول کیلئے امڈ آئے اُن کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے، کیایہ گڈگورنس ہے کہ جب تک کوئی بڑا سانحہ نہ ہو عوام کو انکے حقوق نہیں دینے ؟ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ترجیحات اگر سیاست چمکانا یا اپنے اقتدار کو بچانا رہیں تو پھر چلتے پھرتے پٹرول کے یہ بم ہر روز کسی اور سانحہ کا باعث بن سکتے ہیں اور چلتے پھرتے ان بموں کی لپیٹ میں کوئی بھی آسکتا ہے۔

تازہ ترین