• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرض کریں۔ میرے اصرار پر آج فرض کریں۔ اسے میری طفلانہ خواہش ہی کہیں، لیکن ایک لمحے کو فرض کریں کہ دنیا میں کہیں پاناما جیسا کوئی کیس نہ ہوا ہوتا۔فرض کریں کہ آف شورکمپنیاں بنانے کیلئے قانونی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی لا فرمز میں سے ایک موزیک فا نینسکا کا دنیا میں کوئی وجود ہی نہ ہوتا۔جرمن اخبار سود ڈوئش سائٹنگ کو ایک کروڑ پندرہ خفیہ لاکھ دستاویزات نہ ملی ہوتیں۔آئی سی آئی جے کے نام سے چہتر انٹرنیشنل میڈیا آگنائزیشنز کے ایک سو نو بین الاقوامی صحافیوں کا کوئی کنسورشیم ہی نہ بنا ہوتا۔ فرض کریں کہ پاکستان کے نامور صحافی عمر چیمہ اس کنسورشیم کا حصہ ہی نہ ہوتے۔ فرض کریں کہ آف شور کمپنیوں کا قضیہ ہی کھڑا نہیں ہوتا۔ فرض کریںٹیکس کی چوری کا کوئی جھگڑا ہی نہ ہوتا۔ کوئی فلیٹ، کوئی حدیبیہ پیپرز مل، کوئی رمضان شوگر مل کا کو ئی وجود ہوتا،نہ کوئی سپریم کورٹ کا پاناما پر بنچ بیٹھتا نہ کوئی جے آئی ٹی بنتی۔ نہ کوئی پیشیاں ہوتیں نہ کوئی گواہ تلاش کئے جاتے۔ نہ قطری خط کا کوئی چکر ہوتا۔نہ شہزادے کے بیان کی جگہ پر جھگڑا ہوتا نہ منی ٹریل کا کوئی قصہ ہوتا۔ اور نواز شریف کی جمہوری حکومت کو چار سال گزر گئے ہوتے۔تو کیا اس وقت اگلے جمہوری الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہوتیں؟ ووٹرز لسٹیں بن رہی ہوتیں؟ انتخابی امیدواروں کی فہرستیں فائنل ہو رہی ہوتیں؟ جماعتوں کے اندر منشور پر اگلے پانچ سال کے منشور اور لائحہ عمل پر بحث ہو رہی ہوتی؟ سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہوتیں؟
میرا گمان، مجھے کچھ اور اندیشے سجھا رہا ہے۔ اگر پاناما نہ ہوتا تو کچھ اور ہونا تھا۔ کچھ نہ ہوتا تو کچھ تخلیق کیا جانا تھا۔یا شاید مذہبی جماعتوں کا لانگ مارچ ہو رہا ہوتا، نواز شریف پر کوئی سخت الزام لگ چکا ہوتا یا کسی سے فون پر اداروں کے حوالے سے شگفتہ جملہ زیر بحث ہو رہا ہوتا۔کوئی ذاتی زندگی کی وڈیو سامنے آ گئی ہوتی جس پر ملک بھر میں ہنگامہ اٹھا دیا گیا ہوتا۔ اور کچھ نہیں توبھارت کے ساتھ خفیہ تعلقات کی کوئی دستاویزات سامنے آ گئی ہوتیں۔امریکہ کے ساتھ سودے بازی کا نعرہ لگ چکا ہوتا یا پھر دہشت گردوں کی مدد کا نعرہ لگ چکا ہوتا۔اسپتالوں کی حالت زار پر احتجاج شروع ہو چکا ہوتا یا پھر ینگ ڈاکٹرز کے احتجاج میں کئی لوگوں کو گولی لگ چکی ہوتی۔ٹرک ڈرائیوروں کی ہڑتال کروا دی جا چکی ہوتی یاــ’’ کسانوں‘‘ کو سڑکوں پر لا کر تباہی مچانے کی کوشش شروع کی جا چکی ہوتی یا پھر اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھائو میں ذاتی فائدوں کا الزام لگ چکا ہوتا۔کسی پولیس مقابلے میں مخالف کو مارنے کے حکم کی فون ریکارڈنگ سامنے آ چکی ہوتی، کسی وزیر کی رشوت لیتے ہوئی تصویر سامنے آ چکی ہوتی۔ یہ سب نہ ہوتا تو پارٹی میں فارورڈ بلاک سامنے آ گیا ہوتایا پھر چند وزراء کے استعفیٰ دینے کی افواہ گرم ہوتی۔خاندان کا کوئی جھگڑا اس وقت قوم کے سامنے زیر بحث ہوتا یا پھر اولاد کی جانب سے بغاوت کے کسی بیان پر اس وقت ساری قوم بحث کر رہی ہوتی۔ میڈیا مذکورہ بالا امکانی جرائم کے پیش نظر حکومت کے جانے کی تاریخ دے رہا ہوتا۔کرپٹ اور مجرم حکمرانوں سے چھٹکارا پانے کی دعا مانگ رہا ہوتا۔ سوشل میڈیا اس موقع پر آگ پر تیل چھڑک رہا ہوتا، حکومت مخالف اینکرز اپنے دل کی جی بھر کر بھڑاس نکال رہے ہوتے۔ ہر روز حکومت کے جانے کا اعلان کیا جا رہا ہوتا۔اگلے انتخابات کے سوال پر لوگ ٹھٹھے لگا رہے ہوتے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ہماری ریت روایت ہے کہ ہم جمہوری حکومتوں کو خود منتخب کرتے ہیں اور نامعلوم خبروں پر ان کو رسوا بھی کرتے ہیں۔کون لوگ یہ کرتے ہیں ؟ اس کی منصوبہ بندی کہاں ہوتی ہے؟ کس کے ایماپر سیاست دانوں کو بدنام کیا جاتا ہے یہ بات پھر سہی۔لیکن ہم نے دیکھا کہ بھٹو پر ایک قتل کا مقدمہ کیا گیا اور اس کی وجہ سے ملک کے مقبول جمہوری لیڈر کو پھانسی لگا دی گئی۔بعد میں جسے عدالتی قتل قرار دیاگیا۔
اسی طرح بینظیر اور نواز شریف حکومت کو دو دو دفعہ برخواست کیا گیا۔
کبھی کرپشن کا الزام لگا، کبھی ٹی وی پروگرام میں نوجوانوں کے ہوا میں ہاتھ لہرانے کو لانگ مارچ کی وجہ بنائی گئی۔ کبھی غداری کا الزام لگا کبھی بھارت سے تعلقات وجہ بنا دی گئی۔ آپ غور کریں تو ان میں سے ایک بھی الزام آج تک ثابت نہیں ہوا۔ ایک بھی مقدمے میں مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ ایک بھی جرم کا ثبوت نہیں ملا۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔انکو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا گیا۔اس سے پہلے ایک ایسی کمپین چلی کہ سب کو یقین دلا دیا گیا کہ یہ مجرم ہیں، کرپٹ ہیں۔ اس طرح کی مہم ہر جمہوری دور میںچلتی ہے۔ مقصد صرف جمہوریت پر زور ڈالنا ہوتا ہے۔عوام اور عوامی رائے اس سارے قصے میں کوئی اہم نہیں ہوتی۔ یہ طاقت کی جنگ ہوتی ہے جس میں شکست ہمیشہ سیاستدانوں کا ہی مقدر بنتی ہے۔بہت سے قارئین ابھی تک سمجھ رہے ہوں گے کہ اس طویل تمہید کے ذریعے پاناما اسکینڈل یا شریف فیملی کا دفاع کر نا مقصود ہے۔ اسی الزام سے بچنے کے لئے بات کو ایک اور طرح بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
فرض کریں اس وقت عمران خان کی جمہوری حکومت ہوتی۔ انتخابات میں پی ٹی آئی نے زبردست فتح حاصل کی ہوتی۔ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے۔ ملک جیسا بھی چل رہا ہوتا پی ٹی آئی کی حکومت ہر طرف ہوتی۔ لوگ کہہ رہے ہوتے ہمیں ہمارا نجات دہندہ مل گیا ہے۔ جس شاہکار کے انتظار میں ستر دہائیوں سے تھا وہ دریافت ہو چکا ہوتا۔ ہر طرف بلے کا نشان راج کر رہا ہوتا تو اس وقت کیا ہو رہا ہوتا۔ کیا انکی حکومت آرام سے چل رہی ہوتی؟ کیا جمہوریت اس ملک میں پنپ رہی ہوتی؟ کیا جمہور کو حق مل رہا ہوتا؟ نہیں بلکہ اسکے بجائے اسکینڈلز کی بھرمار ہوتی۔ ذاتی زندگی کی وڈیوز سامنے آ گئی ہوتیں۔ وزراء پر کرپشن کے الزام لگ چکے ہوتے۔ حماقتوں پر لطیفے بن چکے ہوتے۔ نااہلی کی داستانیں زباں زد عام ہوتیں۔ اداروں کی مدد یا مخالفت میں سے کوئی بھی حکم چیلنج ہو گیا ہوتا۔اداروں کی رسوائی کا الزام لگ چکا ہوتا۔ عمران خان سے نجات کی تحریک شروع ہو چکی ہوتی۔ لانگ مارچ کی منصوبہ بندی ہو چکی ہوتی۔مذہبی جماعتیں صف آرا ہو چکی ہوتیں۔وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کی فائلیں بن چکی ہوتیں۔ کوئی مزید آف شور کمپنی سامنے آ گئی ہوتی۔ بہنوں کے اثاثوں پر سوال اٹھ چکے ہوتے۔ کوئی خفیہ شادی منظر عام پر آ چکی ہوتی۔ یہ سب کچھ اس برق رفتاری سے ہوتا کہ عمران خان کی حکومت ایک، ڈیڑھ سال میں ڈھیر ہو چکی ہوتی۔نئے پاکستان کا خواب چکنا چور ہو چکا ہوتا۔
ہمارے ہاں ہر جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے غیرجمہوری اقدامات سامنے آتے ہیں۔ سیاستدانوں کی بدنامی سرعام اتنی ہوتی ہے کہ وہ جان بچانے پر ہی خوشیاں مناتے ہیں۔یہ ماحول اس ملک میں کون بناتا ہے، کہاں سے یہ غیب کے مضامین سامنے آتے ہیں۔ ان جمہوریت کش مہمات کی منصوبہ بندی کہاں ہوتی اس پر بحث نہیںکرنی لیکن یہ سو فیصد درست ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہاں باقی تو اس کالم میں سب باتیں فرضی ہیں بس ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نواز شریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اس غیر جمہوری ماحول میں چار سال نکال گئے ورنہ عمران خان تو ایسی جمہوریت کش مہمات کو ایک، ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ سہار سکتے۔

تازہ ترین