• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبرآئی ہے کہ وائس چانسلرز کی تقرری کے لئے پی ایچ ڈی اور عمر کی شرط ختم، پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا جا رہا ہے یعنی اب کوئی بھی بیورو کریٹ اور ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسر بھی وی سی بننے کے اہل ہوں گے ۔ ماضی میں بلوچستان یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر کرنل بھی رہے ہیں جبکہ یو ای ٹی لاہور کے وائس چانسلر جنرل محمد اکرم تین مرتبہ وائس چانسلر رہے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں جنرل محمد ارشد اور جنرل محمد صفدر دو فوجی جنرل وی سی رہے ۔
رانا ثناءاللہ کی سربراہی میں ایک دس رکنی کمیٹی بن چکی ہے جو وائس چانسلرز کی تقرری کے لئے نئے طریقہ کار پر مزید قانون سازی کرے گی اور تو اور تدریسی تجربے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے ۔
حکومت کی دو عملی تو ملاحظہ فرمائیں ایک طرف حکومت سرکاری یونیورسٹیوں کے لئے وائس چانسلرزتلاش کرنے کیلئے باہر کے ممالک کے اخبارات میں اشتہارات دیتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد چاہئے۔تودوسری طرف وائس چانسلرز کے لئےاب پی ایچ ڈی ، عمر اور تدریسی تجربے کی شرط بھی ختم کی جا رہی ہے اللہ جانے کس کو خوش کرنا ہے اور کس کو لانے کے لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے ہمیں یاد ہے کہ کسی زمانے میں انہی حکمرانوں کے دور میں ایک یا دو دن کے لئے باہر کے ممالک سے گاڑیاں لانے پر ڈیوٹی ختم کی گئی تھی اور جب وہ افراد گاڑیاں لے آئے تو پابندی پھر لگا دی گئی تھی۔
اب بھی کچھ ایسا نظر آتا ہے کیونکہ اس وقت کئی سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تقرری ابھی نہیں ہوئی کئی میڈیکل یونیورسٹیوں میں بھی وائس چانسلرز کی تقرری نہیں ہوئی کیا پتہ کہ میڈیکل یونیورسٹیوں میں بھی کوئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ جنرل لگا دیں کیونکہ دوسری سرکاری یونیورسٹیوں میں ریٹائرڈ فوجی افسران کی تقرری کی روایت تو ہے۔ ویسے تو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ایک جنرل صاحب کئی برس وائس چانسلر رہے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ حکومت کو سرے ہی سے پی ایچ ڈی تدریسی تجربے اور عمر کی حد ختم کر دینی چاہئے کیونکہ پی ایچ ڈی کرکے اس کو کون سی توپ چلانی ہے؟ہمیں یہاں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے پنجاب کے ایک سابق گورنر جو گورنری سے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے تھے اور اپنی مدت ملازمت پوری کئے بغیر چلے گئے تھے۔جب وہ گورنر تھے تو کے ای ایم سی میں (اب یونیورسٹی) کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی آئے ہم بھی اس تقریب میں موجود تھے ہمارے سامنے ایک بہت بڑے سرجن (جن کی ریٹائرمنٹ میں دو/تین ماہ رہ گئے تھے )گورنر صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ سر!میرا کیس ایکسٹینشن کے لئے آپ کے پاس آیا ہوا ہے اگر آپ مہربانی کردیں ۔گورنر صاحب نے اس پروفیسر سے پوچھا کہ آپ کتنے برس ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ رہے ،انہوں نے کہا کہ تیس برس تک ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ رہا ہوں اور اب ایک اور ادارے کا بھی سربراہ ہوں اور میرے ذہن میں اس ادارے کو ترقی دینے کے کئی منصوبے ہیں۔گورنر نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب جو توپ تیس برس میں آپ سے نہ چل سکی اب ایک سال کی ایکسٹینشن میں چل جائے گی ؟اس پر وہ ڈاکٹر صاحب خاموش رہے اور گورنر نے ایکسٹینشن دینے سے انکار کر دیا۔چنانچہ جناب والا جب یونیورسٹی میں آپ ایسے افراد لیں آئیں گے جنہوں نے پی ایچ ڈی بھی نہ کی ہو گی جن کا تدریسی تجربہ بھی نہ ہو گا جن پر عمر کی حد کی پابندی بھی نہ ہو گی تو سوچیں اس یونیورسٹی کا کیا بنے گا۔ پہلے ہی ہماری یونیورسٹیاں بین الاقوامی سطح پر کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتیں۔
اس سے بڑا اور کیا مذاق ہو گا کہ یونیورسٹیوں میں انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی ،ایم فل اور کئی کئی کتابوں کے مصنف، کئی تعلیمی اداروں میں تدریسی تجربہ رکھنے والوں کو آپ وی سی لگنے سے روک دیں اور ان کی جگہ کسی بیورو کریٹ، کسی فوجی جنرل کو لگا دیں۔ اب اس فوجی جنرل اور بیورو کریٹ کو کیا پتا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ا سٹوڈنٹ کے کیا مسائل ہوتے ہیںاور ریسرچ کس چڑیا کا نام ہے؟
ایک بیوروکریٹ کی بنیادی تعلیم کیا ہوتی ہے، بی اے۔ پرانے وقتوں کے جو بابے بیوروکریٹ بیٹھے ہیں وہ صرف اور صرف بی اے تھے اس طرح پرانے فوجیوں کی تعلیم بھی ایف اے اور بی اے تک تھی اور اگر وہ اپنے ا سٹاف کالج یا دیگر کو رسز اندرون یا بیرون ممالک سےکرتے ہیں اس کا یونیورسٹی کی تدریسی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں وہ تمام کورسز اور امتحان ان کے محکمانہ ترقی ایک گریڈ سے دوسرے گریڈ میں ترقی کیلئے ہوتے ہیں۔
یونیورسٹیوں میں ریسرچ ورک بہت ہوتا ہے اور یونیورسٹیاں دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں کے کورسز، نصاب، تدریس اور ریسرچ سے فائدہ اٹھاتی ہیں اس کے لئے یونیورسٹی کے سربراہ کا خود پی ایچ ڈی،ایم فل ہونا تدریس کا طویل تجربہ رکھنا بہت ضروری ہے ۔
آئیے دوسرا پہلو بھی دیکھتے ہیں کہ ایک استاد کسی یونیورسٹی میں بطور لیکچرار بھرتی ہوتا ہے پھر اسسٹنٹ پروفیسر بنتا ہے پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر پھر پروفیسر پھر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ،پھر ڈین اور پرو وائس چانسلر تک جاتا ہے وہ صرف اس لئے اتنی محنت کرتا ہے کہ ایک دن وہ اپنی سنیارٹی، اپنے علم اور تدریسی تجربے کی بنا پر وی سی بنے گا مگر یہاں حساب کتاب ہی کچھ اور ہے کبھی آپ وی سی باہر سےلیتے ہیں،کبھی اس کے تجربے کو، کبھی سنیارٹی کو نظرانداز کر دیتے ہیں کبھی یونیورسٹی ایکٹ کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں ایک زمانہ تھا کہ ہر یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے بعد پرو وائس چانسلر بھی ہوا کرتا تھا۔مگر اب شاید ہی کسی یونیورسٹی میں آپ کو پرو وائس چانسلر نظر آئے۔ آپ نے اساتذہ کے لئے ایک حوصلہ شکن ماحول پیدا کرنا شروع کر دیا ہے جب ایک استاد کو پہلے سے پتا ہو گا کہ اس کو کبھی بھی وائس چانسلر اور پرووائس چانسلر نہیں بننا تو سوچیں کیا اس کا جذبہ اور جوش کام کرنے والا رہے گا؟
مانا کہ کسی یونیورسٹی میں کام کرنے والے ہزار دوہزار اساتذہ سب کے سب تو وائس چانسلر نہیں بنیں گے مگر ان کا آپس میں مقابلہ تو ایک اچھی روایت ہے مگر باہر سے ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا اعلیٰ فوجی ریٹائرڈ افسر لانا کہاں کا انصاف ہے؟ایک طرف آپ پی ایچ ڈی کی بے قدری کر رہے ہیں تو دوسری طرف آپ بیرون ممالک لاکھوں /کروڑوں روپے خرچ کرکے یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر لوگوں کو پی ایچ ڈی کرا رہے ہیں ۔
دنیا کی جن یونیورسٹیوں کی مثالیں ہمارے حکمراںدیتے ہیں وہاں کے سربراہان اعلیٰ تعلیم یافتہ ، پی ایچ ڈی اور طویل تجربہ رکھتے ہیں حکومت کو کوئی ایسا فیصلہ کرنے سے قبل سو مرتبہ سوچنا چاہئے تھا پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو اچھے ماہرین تعلیم چاہئے یا صرف اچھے ایڈمنسٹریٹر؟ اگر آپ کو صرف ایڈمنسٹریٹر چاہئیں تو پھر بے شک آپ ریٹائرڈ فوجیوں اور بیوروکریٹس کو لگاتے رہیںنئی پالیسی سے یونیورسٹیوںکے اساتذہ میں بددلی پیدا ہو گی پہلے ہی ہمارے ہاں تعلیم کا کوئی معیار نہیں نئی پالیسی سے بہت نقصان ہو گا۔آخری بات یہ کہوں گا کہ کیوں پی ایچ ڈی کرواتے ہو؟

تازہ ترین