• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹرز کی تنظیم ’’ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف پاکستانی ڈسنٹ آف نارتھ امریکہ‘‘ اپنے انگریزی نام کے مخفف (A.P.P.N.A) ’’اپنا‘‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ 40سال قبل قائم ہونے والی یہ چھوٹی سی تنظیم مختلف مراحل سے گزر کر اب ایک مربوط اور ممتاز پاکستانی تنظیم بن چکی ہے۔ اس کے بعض بانی اراکین سے لیکر موجودہ منتخب قیادت تک نہ صرف راہ رسم و رابطہ رہا ہے بلکہ مسائل و معاملات پر تبادلہ خیال، اختلاف رائے اور اتفاق کے مواقع بھی آئے کیونکہ ’’اپنا‘‘ کے سالانہ کنونشن کو سالہا سال سے ’’جنگ‘‘ کے صفحات اور پھر ’’جیو‘‘ کی اسکرین پر بکھیرنے کی صحافتی ذمہ داری ادا کرنے کے باعث تنظیم کے ظاہری اور داخلی معاملات سے بھی آگاہ رہنا ضروری تھا۔
اس سال ’’اپنا‘‘ کا 40واں سالانہ کنونشن ریاست فلوریڈا کے ڈزنی ورلڈ والے شہراورلانڈو میں ہوا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یہ کنونشن کسی ایسے بڑے ہوٹل یا ریزورٹ میں ہوسکتا ہے جو بیک وقت چار روزہ بازار لگانے چار پانچ ہزار افراد کی رہائش اور ضروریات پوری کرنے، مختلف موضوعات پر اجتماعات اور گروپ میٹنگ کرنے ڈنرز اور موسیقی کے پروگرام کے اجتماعات کے انتظامات فراہم کرسکتا ہو۔ ان 40 سالوں میں یہ نان پرافٹ اور پروفیشنل تنظیم اتنی وسعت اختیار کرگئی ہے کہ کئی لاکھ ڈالرز کے خرچ سے ہونے والے اس کنونشن میں مختلف میڈیکل موضوعات پر مذاکرے اور لیکچرز کے ساتھ ساتھ سوشل فورم، نئی نسل کیلئے رشتوں اور رابطوں کی حوصلہ افزائی ، شاپنگ بازار ، تفریحی پروگرام اور فلاحی پروجیکٹ بھی ’’اپنا‘‘ کے پروگرام کا حصہ بن چکے ہیں بلکہ اس سال پہلی مرتبہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ اور ہیوسٹن میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل نے کنونشن کےشرکاء کیلئے ایک عارضی دفتر کنونشن سینٹر میں ہی قائم کرکے پاکستانی ویزا اور دستاویزات کی تصدیق کیلئے خدمات فراہم کردیں ۔ پاکستانی سینیٹر اعزاز احمد چودھری بھی اس کنونشن کے مختلف اجتماعات میں شرکت اور خطاب کرتے رہے۔
’’اپنا‘‘ کے 5جولائی تا 9جولائی فلوریڈا میں ہونے والے سالانہ کنونشن میں کئی مفیدطلب مذاکرے اور سیشن دیکھنے اور سننے کو ملے ان میں سرفہرست ’’سوشل فورم‘‘ بعنوان ’’کمپیشن‘‘ یعنی رواداری تھا۔ مذاکرہ کے پینل میں شریک مشہور برطانوی مصنفہ اور دانشور خاتون کیرن آرمسٹرانگ، امریکی اسپالڈنگ یونیورسٹی کی صدر ٹوری مرڈن میکلور اور ہمارے پاکستانی بزنس مین امین ہاشوانی تھے۔ لوئی ویل کنٹکی کے ڈاکٹر عبدالجبار اور ڈاکٹر بابر چیمہ اس مذاکرہ کے انعقاد کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ موضوع کی اہمیت ، ضرورت اور پینل کے انتخاب میں ان کی دردمندی اور معاشرتی ذمہ داری کی جھلک واضح تھی۔ ہمارے معاشرہ کو مزید تنزلی سے بچانے کیلئے رواداری لازمی ضرورت ہے۔ کیرن آرمسٹرانگ نے مختلف مذاہب کے درمیان رواداری اور بقائے باہمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے آنحضرت ﷺاور ان کی تعلیمات کے احترام کے ساتھ حوالے دیئے۔ اسپالڈنگ یونیورسٹی کی صدر نے رواداری اور باہمی برداشت کے دیگر پہلو اجاگر کئے جبکہ امین ہاشوانی نے مسلم دنیا کے حالات اور پاکستان کے تناظر میں موثر انداز میں گفتگو اور شراکت کی۔
ایک اور اہم میڈیکل موضوع نوجوانوں میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان پرٹیکساس کے ڈاکٹر عاصم شاہ کا لیکچر تھا۔ رواداری کے موضوع پر مفید مذاکرہ ڈائومیڈیکل ، نشتر میڈیکل اور علامہ اقبال میڈیکل درسگاہوں سے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی المنائی ایسوسی ایشنوں کی شراکت داری کا نتیجہ تھا۔
اس سال کے کنونشن میں یہ بات بھی قابل ذکر رہی کہ کسی بھارتی فنکار کو نہیں بلایا گیا ۔ عموماً ماضی میں یہ منطق پیش کی جاتی رہی ہے کہ نوجوان نسل کی پسند کی خاطر بھارتی فنکاروں کو مہنگے داموں بلانا ضرورت ہے مگر اس سال پاکستانی فنکار راحت فتح علی خاں اور عاطف اسلم نے فن کا مظاہرہ کیا اور دونوں دن ہال مکمل طور پر 3000 تا 4000 افراد سے بھرے پائے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض پاکستانی فنکار خود بھی دیر سے آکر جلدی جانے کی کوشش میں ناظرین اور منتظمین کو مایوس کرنے کے عادی ہیں۔ اس سال عاطف اسلم اسٹیج پر خاصی دیر سے آئے اور منتظمین کو پاک بھارت کرکٹ میچ کی ویڈیو چلا کر سامعین کو مصروف رکھنا پڑا۔ راحت فتح علی خاں وقت سے پہلے اسٹیج پر موجود تھے۔
پاکستان سے آکر امریکہ آباد ہونے والے ڈاکٹرز مختلف گروپوں کی شکل میں آبائی وطن پاکستان کیلئے اپنی معاشرتی ذمہ داریاں بھی پوری کرتے ہیں۔ سندھ کے قابل استعمال پانی کی قلت والے علاقوں میں پانی کی فراہمی کیلئے پمپ لگا کر خدمت خلق کرنے والے ڈاکٹروں کے گروپ کی قیادت میں میرپورخاص کے ڈاکٹر عبدالمجید آرائیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں بہت سے ایسے صحت عامہ اور عوامی فلاح سے متعلق کام اپنانے 40سال میں کئے ہیں جو قابل ستائش ہیں اور ’’اپنا‘‘ کے وجود اور اہمیت کو اسلام آباد کے سرکاری حلقوں میں مقبولیت دلانے کا اہم سبب بھی رہے ہیں۔ ہر جانے یا آنے والی پاکستانی حکومت ’’اپنا‘‘ کی قیادت کو جتنی اہمیت دیتی ہے وہ بیرون ملک قائم کسی پاکستانی پروفیشنل یا ثقافتی تنظیم کو حاصل نہیں۔ اسی طرح پاکستانی فنکار ، نان پرافٹ ادارے بھی ’’اپنا‘‘ کی توجہ اور پروگراموں میں شرکت کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ رہی ’’اپنا‘‘ کے مستقبل کی بات تو اس سلسلے میں ’’اپنا‘‘ کے سابق صدور ، سرکردہ شخصیات اور لائف ممبرز سے مجھے اس موضوع پر گفتگو کرنے کا موقع ملا ، ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ موجودہ سال کے صدر ’’اپنا‘‘ ڈاکٹر ساجد چودھری نہ صرف اپنی مدت صدارت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں بلکہ ’’اپنا‘‘ کے مستقبل کی سمت کو بھی درست جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب ’’اپنا‘‘ امریکہ میں کمیونٹی کی بھلائی اور سماجی رابطوں پر توجہ دے گی۔’’ سوک انگیج منٹ‘‘ کے ذریعے ’’اپنا‘‘ کے امیج کو امریکہ میں اجا گر کیا جائے گا۔ اگلے سال کیلئے منتخب صدر ڈاکٹر ظفر اقبال حمید نے بتایا کہ اگلے سال ان کی میعاد صدارت شروع ہوتے ہی ’’اپنا‘‘ کے معاملات مختلف انداز میں عمل پذیر ہوں گے۔ وہ بڑی تبدیلی کا واضح اشارہ دے رہے ہیں۔ 2019ء کیلئے صدارت کے دونوں امیدواروں پر انتخابی ضوابط کے تحت میڈیا انٹرویوز پر پابندی ہے لیکن میں اپنی کئی سال کی ذاتی و صحافتی معلومات کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر نسیم شیخانی اور ڈاکٹر رضوان خالد دونوں امیدوار نظریاتی طور پر دو مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کا انداز صدارت مختلف ہوگا۔ ’’اپنا‘‘ کی کونسل کی بند کمرے میں اجلاس کی کارروائی کے دوران تلخ کلامی تنقید اور سیکورٹی گارڈز بلائے جانے کی اطلاعات اختلافی صورتحال کو واضح کرتی ہیں۔ متعدد سابق صدور بھی ’’اپنا‘‘ کے مستقبل کی سمت بارے محتاط یا منفی رائے رکھتے ہیں۔ ٹیکساس کے ڈاکٹر کاشف انصاری تو واضح اور اعلانیہ طور پر ’’اپنا‘‘ کی کسی افادیت اور کارکردگی ماننے سے انکاری ہیں اور اسے محض ایک ’’ایلیٹ‘‘ یعنی مخصوص طبقہ کے کلب کا نام دیتے ہیں جس کا عوام کی یاکمیونٹی کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں۔ ’’اپنا‘‘ کے سرکردہ قائدین کے مختلف خیالات ، منشور اور وعدے اپنی جگہ لیکن ’’اپنا‘‘ کے مستقبل کے حوالے سے خیرخواہی کی نظر سے چند تحفظات اور حقائق کچھ یوں ہیں ( 1) گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان سے امریکہ آنے والے ڈاکٹرز کی تعداد میں بہت کمی آئی ہے گویا ’’اپنا‘‘ کیلئے نئی قیادت اور نئے خون کی کمی ہو رہی ہے جو کچھ عرصہ بعد بحران بھی پیدا کرسکتا ہے (2) امریکہ میں آبادپاکستانی ڈاکٹرز کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق 15ہزار تک بتائی جاتی ہےلیکن ’’اپنا‘‘ کے ممبران کی تعداد 40سال گزرنے کے بعد اب بھی 3500 سے زائد ہرگز نہیں۔ قائدین ’’اپنا‘‘ یہ جواز پیش کرتے ہیںکہ امریکہ اوردیگر پروفیشنل تنظیموں کی ممبر شپ بھی کل تعداد کا صرف 30 ہی ہوتی ہے لہٰذا ’’اپنا‘‘ کی شرح ممبر شپ درست ہے۔ میری غرض یہ ہے کہ صرف شرح کے مفروضے پر 70فی صد پاکستانی ڈاکٹرز کو ’’اپنا‘‘ کی ممبر شپ کیلئے راغب نہ کرنا مناسب نہیں۔ ’’اپنا‘‘ کو اپنا دائرہ اور اثر وسیع کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ایسی ممبر سازی کی مہم شروع کرنی چاہئے جس میں ماضی کی غلطیوں کااعادہ نہ ہو بلکہ معیار اہلیت امریکہ میں ڈاکٹری کا لائسنس اور دیگر دستاویزات کا ریکارڈ ہو۔ اگر 3500 ممبران کی ’’اپنا‘‘ اس قدر موثر اور مفید ہے تو دس ہزار ممبر شپ پر امریکہ اور پاکستان میں ’’اپنا‘‘ کے وقار اور وزن میں کتنا اضافہ ہوگا۔ (3) اب امریکی میڈیکل کالجوں اور کریبین کے کالجوں سے ڈگری یافتہ پاکستانی نژاد ڈاکٹرز بھی سامنے آرہے ہیں جن کا انداز فکر مختلف ضرور مگر وہ پاکستانیوں کی نئی نسل ہیں۔ پاکستان کی میڈیکل درسگاہوں میں ڈائومیڈیکل اور کنگ ایڈورڈ کے گریجویٹ ’’اپنا‘‘ کی فیصلہ سازی پر حاوی رہے ہیں۔
علامہ اقبال، جناح سندھ آغا خان، خیبر میڈیکل ، لیاقت میڈیکل اوردیگر درسگاہوں سے امریکہ آنے والے ڈاکٹروں کے ویزا اور دیگر مسائل نے ان کی تعداد خاصی کم کردی ہے۔ تبدیل شدہ حالات میں ’’اپنا‘‘کی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اب تک ’’اپنا‘‘ نے دیگر میڈیکل ایسوسی ایشن کی طرح نہ تو کسی لابنگ فرم یا پبلک ریلیشنز فرم کی واشنگٹن میں خدمات حاصل کیں اور نہ ہی ماضی میں کوئی طویل المیعاد پلان یا حکمت عملی وضع کی جو پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کے مفادات کا تحفظ کرے (4) وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہے کہ نوجوان نسل کو ’’اپنا‘‘ کی قیادت میں آگے لایا جائے تاکہ روایتی اختلافات اور پرانی قیادت کی بجائے ’’اپنا‘‘ کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ نئے تقاضوں کے مطابق کیا جاسکے۔ ’’اپنا‘‘ کی قیادت نے 40ویں سالانہ کنونشن میں اس تنظیم کے بانی صدر ڈاکٹر ظہیر الدین کو خراج تحسین پیش کرکے انتہائی قابل ستائش کام انجام دیا ہے۔ ’’اپنا‘‘ میں نئی نسل کے نوجوان ڈاکٹرز صدر کی کمی بھی ہے اور موجودہ حالات کے باعث مزید کمی ہونے کا امکان ہے۔ ’’اپنا‘‘ کو صرف ایک دو نسلوں سے بھی آگے متحرک تنظیم رکھنے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے بانیوں اور سینئر قیادت کو ڈاکٹروں کی نئی نسل اپنے ساتھ شراکت کراکے باگ ڈور کیلئے نوجوانوں کو تیار کرنا چاہئے۔ تقریباً 10تا 12ہزار پاکستانی ڈاکٹرز کو ’’اپنا‘‘ کی ممبر شپ کے فولڈ میں لانے کی مہم اور تدبیر کرنی چاہئے محض جزوقتی کلینک میں ابتدائی نوعیت کی مفت سروس سے کمیونٹی کی خدمت کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ ’’اپنا‘‘ کے وسائل اور نیک جذبہ کو بھرپور انداز میں کام میں لانے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ ’’اپنا‘‘ کی قیادت خیرخواہی کے ساتھ ان دوستانہ مشوروں کا برا نہیں منائے گی۔

تازہ ترین