• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کشمیر پر انتہا کا ظلم کررہا ہے، وہ پیلٹ گن سے آگے بڑھ کر اب کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر اتر آیا ہے جبکہ جدوجہد آزادی ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے، کشمیر کے نوجوانوں نے اس کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے کہ وہ کشمیر کو آزاد کرا کر ہی دم لیں گے، گلیاں، کوچے اور بازار میں سارے جنگ آزادی کے نام لکھ دیئے گئے ہیں، دیواریں ہیں کہ وہ کشمیر کی آزادی کا پیغام یاد دلا رہی ہیں، جس پر بھی بھارتی سخت نالاں ہیں اور اُن کو یہ نعرے مشتعل کرتے ہیں۔ اسلئے گلیوں کے سرے پر وہ ریڈار لگا رہے ہیں تاکہ جان سکیں کہ دیوار پر چاکنگ کون کرتا ہے، یہ کشمیریوں کے لئے بہت مشکل وقت ہے، وہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اِس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ برہان الدین وانی کی شہادت کو ایک سال بیتا گیا ہے مگر یہ تحریک ہے کہ مدھم پڑنے کا نام نہیں لے رہی ، بڑھتی چلی جارہی ہے، پہلے سے اسرائیلیوں نے بھارتیوں کو یہ سکھایا ہوا ہے کہ وہ کشمیریوں کو دبائے جائیں دُنیا میں اُن کا کوئی سننے والا نہیں، جس طرح کہ اسرائیل فلسطینیوں کو دبا کر رکھئ ہوئے ہے۔ مجھے ایک اسرائیلی ایڈمرل کی تقریر یاد آئی جو انہوں نے چندی گڑھ بھارت میں 2005ء میں کی تھی کہ فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں بجز اس کے کہ اُن سب کو ختم کردیا جائے۔ یہ بات اِس قوم کا فرد کہہ رہا تھا جو ہولوکاسٹ کا رونا ہر مقام پر روتی ہے ہر تقریر میں ذکر کرتی ہے ،مگر اپنے سوا سب کا قتل واجب سمجھتی ہے۔ اب اسرائیلی دورے میں نریندر مودی اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ساحل پر ننگے پائوں پھر کر کیا سازشیں کی ہیں، وہ پتہ نہیں یہ اس لئے کہ کوئی سیٹلائٹ اُن کی گفتگو ریکارڈ نہیں کرسکتا، کوئی کمرہ یا کرسی ہوتی تو ریکارڈ کیا جاسکتا تھا، اُن کو ساحل پر گفتگو کرتے دیکھا جاسکتا ہے مگر اُن کی گفتگو ریکارڈ نہیں کی جاسکتی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کی گفتگو کیونکہ ایک کمرے میں ہوئی تھی، اس لئےسی آئی اے نے ریکارڈ کرلی تھی، اگرچہ گفتگو کے کمرے کو محفوظ قرار دے دیا گیا تھا اور اُن کی گفتگو مبینہ کا ریکارڈ شدہ ٹیپ پاکستان کے اس وقت کے صدر کو سنایا گیا تو محترمہ کو رخصت کرنا پڑا تھا۔ اس لئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیراعظم نے ساحل سمندر کو خفیہ گفتگو اور سازش کو تیار کرنے کیلئے چنا اور وہ بھی چلتے ہوئے کیونکہ حرکت میں گفتگو کو سیٹلائٹ سے ریکارڈ کرنا اور بھی مشکل ہے۔ اگرچہ مجھے سائبر کا تجربہ نہیں ہے مگر مواصلاتی نظام پر میں نے کام کیا ہے اور 80 کی دہائی میں یہ باتیں ہم عالمی مواصلاتی مارکیٹ جنیوا کی کانفرنسوں میں سنتے تھے۔ کچھ پر کام ہورہا تھا اور کچھ نظام کام کررہے تھے، 1991ء میں ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ اسرائیل نے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے کہ وہ منتخب شدہ کسی بھی ٹیلیفونک گفتگو کو اسرائیل تا جاپان تک سن سکتے ہیں، اگرچہ یہ غیرمعمولی بات کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا، مگر بعد کی تحقیق سے اندازہ ہوا کہ یہ ہو سکتا ہے، پاکستان کے حکام نے اس کو سرے سے رد کردیا کہ ایسا ہوسکتا ہے، 9/11 کے بعد ایک کانفرنس میں یہ گزارش کی تھی کہ پاکستانی اداروں کے محفوظ گھروں کو امریکہ نے سیٹلائٹ کے ذریعے نظر میں رکھا ہوا تھا۔ اس پر بھی اُن کو یقین نہیں تھا مگر بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کردیا کہ ہمارے نظام کو وہ سمجھتے ہیں اور باتوں کو امریکی سن لیتے ہیں پھر قدرے تبدیلی آئی، اب پاکستان کو خطرہ اسی قسم کا ہے جیسا کے مصر کو اسرائیل کے ساتھ جنگ میں لاحق ہوا تھا اور اُن کی فتح شکست میں تبدیل ہوگئی تھی کیونکہ امریکیوں نے مصری فوج کی پوزیشن سیٹلائٹ کے ذریعے اسرائیل کو بتلا دی تھی جس پر اسرائیل نے بمباری کردی تھی۔ اس وقت وہ پاکستان کے خلاف منجمد کرنے والے آلات اور پوزیشن پتہ لگانے والے آلات استعمال کرسکتے ہیں۔ اگرچہ خود بھارت کے 130 کے قریب سیارے خلا میں تیر رہے ہیں مگر اُن کی خصوصیات اور کام کیا ہیں وہ ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئیں، ہمیں اس پر تحقیق کا وقت نہیں ملا، تاہم پاکستانیوں کو اس کی تیاری کرنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا کرنا ہے، کشمیر میں اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے بہت سی اقوام کو تیار کرنا ہے، شکر ہے ایران اپنی پرانی روش پر آگیا ہے، اس نے کشمیریوں کی قانونی مدد کا اعلان کیا ہے۔ ایران کا بھارت کی طرف کافی جھکائو تھا وہ تو اب ختم ہوجائے گا۔ اس ملاقات کے بعد کئی اور ممالک کشمیر کی حمایت پر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ خیال کرکے کہ یہ ظالموں کا گٹھ جوڑ ہے کہ اسرائیل فلسطین میں جو ظلم کررہا ہے، عرب ممالک کو بہرحال ایک دفعہ تو سوچنا پڑے گا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھارت سےکئی ارب ڈالرز کے معاہدے کئے ہیں اور قطر کو تو بھارتی ہی چلا رہے ہیں۔ تاہم ہماری تجویز یہ ہے کہ سفارت کاروں، صحافیوں، وکلا، دانشوروں، سابق جج صاحبان، سابقہ فوجی و پولیس افسران، پارلیمان، تاجر حضرات اور طلبا پر مشتمل پانچ رکنی کمیٹیاں بنائی جائیں اور انہیں یورپ اور مشرق بعید، افریقہ اور لاطینی امریکہ اور آسٹریلیا بھیجے جانے سے پہلے ایک ہفتہ کی کشمیر کے بارے میں بریفنگ دی جائے۔ یہ کمیٹیاں اپنے ہم پیشہ لوگوں سے گفتگو کرکے کشمیر کی زبوں حالی، اس پر مظالم جن میں پیلٹ گن کا استعمال اور کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کو خاص طور پر غیرملکیوں کو دکھایا جائے، ایسی ویڈیوز موجود ہیں جو نوجوانوں کو مار مار کر پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے جارہے ہیں۔ اگر یہ سب کردیا جائے تو بھارت شدید دبائومیں آجائے گا اور سفارتی و ملکی سطح پر تمام سفارت خانوں کو ہدایت دی جائے کہ وہ کشمیر پر مظالم کے بارے میں صحافیوں، دانشوروں اور پروفیسرز اورانسانی حقوق کی تنظیموں کو بلا کر بریفنگ دیں۔

تازہ ترین