• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی عرب:طالبات کو کھیلوں میں حصہ لینےکی اجازت دینے کا فیصلہ

The Decision To Allow Female Students To Participate In Sports

سعودی حکومت نے نئے تعلیمی سال سے پبلک اسکولوں میں لڑکیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے اور فزیکل ایجوکشن کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سعودی وزارت تعلیم نے کہا ہے کہ لڑکیوں کے لئے بتدریج تمام اسکولوں میں فزیکل ایجوکیشن کی کلاسیں شروع کر دی جائیں گی تاہم اس کا انحصار ضروری آلات اور خواتین انسٹریکٹر کی دستیابی پر ہو گا اوراس سلسلے میں اسلامی قوانین کا خیال رکھا جائے گا۔

دوسری جانب سعودی مجلس شوریٰ کا کہنا ہے کہ مقررہ ضوابط کے مطابق لیڈیز اسپورٹس کلب قائم کئے جائیں،نجی اداروں کو اسپورٹس کلب قائم کرنے کے اجازت نامے دیتے وقت پابند کیا جائے کہ وہ معذوروں کو بھی سہولتیں فراہم کریں۔

شوریٰ نے اسپورٹس اتھارٹی سے کہا ہے کہ وہ مملکت بھر میں مردو خواتین کیلئے سوشل اسپورٹس پروگرام بڑی تعداد میں شروع کرے۔پورے ملک میں قومی ٹیموں کے مراکز سے متعلق معلومات مرتب کریں۔ علاقائی اور عالمی مقابلوں میں ٹیموں کی شرکت کے نتائج سے آگاہ کیا جائے۔

ارکان شوریٰ نے وضاحت کی کہ اس نے گرلز اسکولوں میں ورزش پر پابندی کبھی نہیں لگائی البتہ شرعی ضوابط کا لحاظ کرتے ہوئے اسکولوں میں ورزش کا مضمون نافذ کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سعودی عرب میں سخت قوانین نافذ ہیں جس میں عورتوں کی آزادی محدود ہے۔ انہیں مخصوص لباس پہننا ہوتا ہے اور وہ مرد سرپرست کے بغیر کہیں آجا نہیں سکتیں، لیکن حالیہ برسوں میں سعودی حکومت آہستہ آہستہ اصلاحات نافذ کررہی اور خواتین کے لیے مواقعوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

سعودی عرب کی شریعہ کورٹ نے 2014 میں لڑکیوں کے لئے اسکولوں میں فزیکل ایجوکشن متعارف کرانے کی منظوری دے دی تھی لیکن علما ءکی شدید مخالفت کے باعث اس کا اطلاق نہیں ہو سکا تھا۔

اس نرمی کے بعد لڑکیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے کا موقع مل سکے گا جس کے لیے خواتین کے حقوق کی کارکن ایک عرصے سے تحریک چلا رہی ہیں۔

کھیلوں تک رسائی ان خواتین کے لیے ایک بڑی تفریح ہے جن کے گھرانے انہیں اس کی اجازت دے دیتے اور ان کے پاس مالی وسائل موجود ہیں ۔ کچھ عرصے کے دوران سعودی عرب میں چند کلب قائم ہو چکے ہیں جہاں خواتین باسکٹ بال کھیل سکتی ہیں۔

کچھ عرصے سے سعودی حکام ایسے جم قائم کرنے کے لائسنس جاری کر رہے ہیں جہاں صرف خواتین جا سکتی ہیں۔ لیکن ان کی ممبر شب بہت زیادہ ہے اور اکثر خواتین اس کی استطاعت نہیں رکھتیں۔

تازہ ترین