• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی فشریز ، لاکھوں لوگوں کی ملازمت، کروڑوں کی خوراک کا مرکز

Karachi Fisheries Millions Of Jobs Millions Of Food Centers

کراچی فشریز ۔۔وہ مقام جہاں پہنچ کر دور سے ہی سمندری پانی اور مچھلیوں کی مخصوص بو آپ کا استقبال کرنے لگے، سمجھ لیں کہ آپ کراچی فشریز پہنچ چکے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ملک کے دوسرے شہروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مچھلی اور دوسری سمندری خوراک برآمد کی جاتی ہے۔

یہاں ہر قسم کی چھوٹی بڑی مچھلی فروخت کے لیے لائی جا تی ہے۔ کبھی کبھار ساحل پر کوئی دیو ہیکل مچھلی ملے تو بھی اسے آپ یہیں فروخت ہوتا دیکھیں گے۔

سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی یہاں چہل پہل شروع ہوجاتی ہے اور جیسے جیسے دن چڑھتا جاتا ہے یہاں کی رونقیں بحال ہوتی جاتی ہیں۔

آیئے آج یہاں ملنے والی مچھلیوں کی کچھ اقسام کے بارے میں ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ یہ ہیں موری، لووڑ، جھنگٹ، جھینگا  دیہہ، سلور، بکہ، سنگھاڑا، رنچھی، سفید پاپلیٹ، کالا پاپلیٹ، رؤ ، مراک اور دبہ وغیرہ۔

ماہی گیر :۔
مچھلیوں کے شکار کے لیے ہر روز سینکڑوں ماہی گیر کھلے سمندر میں جاتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں کئی کئی مہینے کھلے سمندر میں رہنا پڑتا ہے جبکہ بسا اوقات یہ صبح جا کر شام کو واپس آجاتے ہیں۔

ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ سمندر کی روزی ہوائی روزی کہلاتی ہے جس میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کتنا کما سکیں گے۔ ایک ماہی گیر منصور علی کا کہنا تھا کہ کسی چکر میں تو انہیں 40 سے 50 لاکھ روپے کی مچھلیاں بھی مل جا تی ہیں۔

منصور علی کا کہنا تھا کہ ایک کشتی میں تقریباً 20 سے 25 مزدور جاتے ہیں جو ایک یا دو مہینے سمندر میں گزار کر آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے جہاز ٹھیکیداروں کے ہوتے ہیں جس پر ماہی گیر مزدوری کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سمندر میں جانے والے ایک جہا ز پر 18 سے 20 لاکھ روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔ ٹھیکیدار پہلے جہاز پر آنے والا خرچہ نکالتا ہے اس کے بعد وہ مزدوری دیتا ہے۔

اپنے پیشے کے حوالے سے منصور علی نے بتایا کہ یہ ان کا آبائی پیشہ ہےاور ان کے باپ دادا بھی یہی کا م کرتے آرہے ہیں۔

ایک اور ماہی گیر قاسم کا کہنا تھا کہ وہ سمندر پر جا نے کے لیے اپنے ساتھ ضرورت زندگی کا سارا سامان لے کر جاتے ہیں۔ کھلے سمندر میں ما ہی گیروں کا آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ رہتا ہے اور کسی بھی مشکل صورتحال میں وہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ ماہی گیروں کا آپس میں جہازوں پر لگے وائرلیس ٹاور اور وائر لیس سسٹم کے ذریعے  رابطہ ہوتاہے۔

پاک بحریہ ان ماہی گیروں کو سیکیورٹی فراہم کرتی ہے جبکہ میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی ان کی تلاشی لیتی ہے جس میں ان کے کا غذات چیک کیے جاتے ہیں۔ مثلاً شناختی کارڈ اور ماہی گیروں کو جاری کیا گیا خصوصی لائسنس۔ کسی بھی مشکل یا ناگہانی آفت کی صورت میں بحریہ ہی ان کی مدد کے لیے جاتی ہے جبکہ انہیں مکمل ریسکیو بھی کیا جا تا ہے۔

زیادہ مچھلیوں کے لالچ میں ماہی گیر گہرے سمندر میں نکل جاتے ہیں یا پھر غلطی سے سمندری حدود بھی پار کر جاتے ہیں جہاں انہیں بھارتی سیکیورٹی ایجنسیاں گرفتار کر لیتی ہیں۔ ماہی گیروں کی بڑی تعداد بھارتی جیلوں میں اب بھی قید ہے۔


ماہی گیروں کے حقوق کے لیے کا م کرنے والی ان کی نمائندہ تنظیم فشر مین فوک فورم ہے۔ ماہی گیروں کی رجسٹریشن فشریز سوسائٹی میں ہوتی ہے۔ ماہی گیروں کی بڑی آبادی مچھر کالونی اور منوڑہ کے ساحل پر واقع 2 جزیروں بابا اور ڈیک ڈیتھ میں رہتی ہے۔

جال بنا نے کا کام :

سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال کا استعمال کیا جاتا ہے۔ فرید نامی شخص جال بنانے کا کام کرتا ہے۔ فرید نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ وہ بہت عرصے سے یہ کام کرتا آرہا ہے۔ اس نے بتایا کہ 4 مزدور مل کر ایک جال بناتے ہیں جبکہ بڑا جا ل بننے میں دو دن لگ جا تے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ انہیں 700 سے 800 روپے تک دیہاڑی ملتی ہے۔

فرید نے بتایا کہ نیا جال 60 ہزار روپے میں تیار ہوتا ہے جبکہ بڑے جال کو وہ 1 لاکھ 25 ہزار روپے میں تیار کرتے ہیں، ہم لوگ ایک مہینے میں 20 سے 25 جال تیار کرلیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جولائی اور اگست جال بنانے کا سیزن ہوتا ہے کیونکہ ان مہینوں میں ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی اسی لیے ماہی گیر ان مہینوں کے دوران اپنے جال تیار کرواتے ہیں۔

فرید کا کہنا تھا کہ فشریز میں جال بنانے والے 30 سے 35 ٹھیکیدار موجود ہیں۔ ایک نئی کشتی میں 10 سے 12 جال ہوتے ہیں جبکہ پرانی میں ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

جال بنانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ پلاسٹک سے بنتا ہے اور اس میں پلاسٹک کی پٹیاں شامل ہوتی ہیں۔

ایک اور مزدور بدر منیر نے بتایا کہ جال بنا نے میں 36 تار کا موٹا دھاگہ استعمال ہوتا ہے جبکہ جال کے سائیڈ میں لگنے والی رسی سولہ ملی میٹر کی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جال تیار ہو نے کے بعد جہاز میں رکھا جاتاہے۔ جہاں اس پر چھابڑ اور موٹی رسی سے باندھ کر کھلے سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام کرنے والے کو ’’کھلاسی ‘‘ کہا جاتا ہے۔

تازہ ترین