• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ملک میں ابتک اگر کسی کا احتساب ہوا تھا تو وہ کراچی کے مجسٹریٹ رمیش لال کا کہ اس پر الزام تھا کہ اس نے کراچی میں سول لائن تھانے میں پولیس کی طرف سے آصف علی زرداری کے خلاف اغوا، دہشتگردی اور تاوان کی وصولی کے مقدمے میں اعترافی بیانات میں ہیرا پھیری یا ’’ٹمپرنگ‘‘ کی تھی۔
ہوا یہ تھا، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سن انیس سو نوے میں بینظیر بھٹو کی صدر غلام اسحاق خان کےہاتھوں حکومت کے خاتمے پر انکے شوہر کو گرفتار کر کے جو مقدمات قائم کیے گئے تھے ان میں ایک مقدمہ لندن کے شہری اور اسوقت انکے ساتھی وڈیرے غلام حسین انڑ کے برادرنسبتی مرتضی بخاری کی ٹانگ میں بم باندھنے اور انہیں اسوقت بی سی سی آئی یا بینک آف کامرس اینڈ کریڈٹ انٹرنیشنل کی کراچی شاخ (شاید کھاردار) میں انکے کھاتے سے ایک بھاری رقم نکلوا کر انکے حوالے کرنے کو اغوا کر کے لایا گیا تھا۔ باقی سب تاریخ ہے۔ جن ملزموں کو آصف علی زرداری کے شریک ملزم کر کے پکڑا گیا تھا ان میں سے کئی کو عقوبت خانے میں وعدہ معاف گواہ بنو اکرمجسٹریٹ کی عدالت میں بیان دلوائے گئے تھے کہ یہ سب کچھ انہوں نے آصف علی زرداری کے کہنے پر کیا تھا۔ مرتضی بخاری جو کہ ایک اور ملزم غلام حسین انڑ کا ہی ہم زلف تھا کی ٹانگ پر بم باندھے جانے کی کہانی کو بھی بعد میں کسی مزاحیہ کرائم تھرلر سے کم نہیں بتایا گیا کہ میڈ ان لیاری یہ مبینہ جعلی بم زرداری صاحب کے کسی دوست نے تیار کیا تھا جس پر ٹرانسسٹر والی بیٹری کے ڈبے پر ’’خطرہ‘‘ لکھا گیا تھا۔ اور اسی جعلی بم کی دہشت لندن کے شریف مہذب شہری پر طاری کر کے اس سے ایک بھاری رقم سے ہاتھ اٹھوایا گیا تھا۔
پاکستان کا صدر غلام اسحاق خان تھا۔ جام صادق علی سندھ کا صوبہ دار، اور وزیر داخلہ عرفان علی مروت۔ وقت یا تاریخ کے پہیے کے بھی عجیب چکر ہیں۔ اب کراچی میں حالیہ ضمنی انتخابات میں پی پی پی کی جیت کا سہرا جیتنے والے جیالے سعید غنی سے زیادہ عرفان مروت کے سر رکھا جا رہا ہے۔ خیر۔
تو تم سے میں کہہ رہا تھا کہ صدر اسحاق خان نے تعزیرات پاکستان کی اغوا اور اغوا برائے تاوان کی دفعات میں ترمیم کرواتے ان کے ضمیمے میں سزائے موت شامل شاید فقط اس لیے کروائی کہ ان الزامات والے مقدمے کا سامنا آصف علی زرداری کو تھا۔ حالانکہ اب یہی دفعات شہریوں کو غائب کرنے والوں پر صحیح طور پر لگ سکتی ہیں۔ نہ اتنی ہمت بی بی میں تھی نہ میاں میں ہے۔ وقت کا پانسا پلٹا۔ نواز شریف کی حکومت صدر اسحاق سے محاذ آرائی پر انیس سو ترانوے میں ختم ہوئی اور بلخ شیر مزاری ملک کا نگران وزیر اعظم۔ سندھ ہائوس اسلام آباد میں بلخ شیر مزاری اپنے قریبی دوستوں کو بتاتے پھرتے تھے کہ وہ نگران وزیر اعظم بنائے جا رہے ہیں لیکن انکی ایسی بات پر کوئی اعتبار نہیں کرتا تھا۔
پھر اسی صدر اسحاق خان نے بلخ شیر مزاری کے تحت نگران کابینہ میں آصف علی زرداری کو جیل سے نکال کر وفاقی وزیر بنانا چاہا۔ اور اسی لیے ہی ایوان صدر کی منشا سے بیچارے رمیش لال مجسٹریٹ کو آصف علی زرداری کے مقدمے کے ریکارڈ میں اعترافاتی بیانات میں ہیرا پھیری کرنے کو کہا گیا۔ اسی آصف علی زرداری سے اسی صدر غلام اسحاق خان نے پانی اور بجلی کے نگران وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھوایا۔ جن کے اور جن کے دوستوں کیلئے اپنے عزیز ہموطنو السلام علیکم والے خطاب میں کہا گیا تھا کہ وہ ایوانوں میں دندناتے پھرتے تھے۔ ترانوے میں پھر ان وعدہ معاف گواہوں کے ساتھ جو کچھ وفاداری بدلنے پر ہوا کہ انڑ حالت قید میں اسپتال کے بسترپر فوت ہوا۔ یاروں کے یار کا انتقام۔
پھر سال چھیانوے میں بینظیر کی دوسری حکومت کا اسوقت کے صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں خاتمہ اور بیچارہ رمیش لال مجسٹریٹ پھر اس الزام میں جیل گیا کہ اس نے زرداری و دیگر ان کے خلاف مقدمے کے بیانات میں ہیرا پھیری کی جسکا فائدہ آصف علی زرداری کو ہوا۔ سندھی میں کہتے ہیں کہ بھری کشتی میں فقط ہندو بھاری ہوتا ہے۔سو پورے ملک پاکستان میں احتساب کی موٹی رسی بھی رمیش لال کی پتلی گردن میں فٹ آئی۔
پھر کیسے کیسے نہ ڈرامے چل پڑے جن پر بس شیکسپئر ہی لکھ سکتا ہے۔ دیسی شیکسپئر۔ یا پھر انصاف اور قانون جیسی فلم کی کہانی کا مصنف۔ یاد ہے اداکار محمد علی کاکردار؟ زرداری سمیت پاکستان کے سیاستدانوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔
آپ نے دیکھا کہ راضی فارم کے ریکارڈ میں بھی ’’پٹواریوں‘‘ نے کیسی ہیرا پھیری کی۔
ستانوے میں پھر اسی لیاقت علی جتوئی کے خلاف بدعنوانی کے تمام مقدمات اسلام آباد اور راولپنڈی کے زیر ہدایات ممتاز بھٹو کی سندھ میں نگران حکومت نے ختم کروائے جس نگران سرکار نے قائم کیے تھے۔ اب اسی نگران حکومت کا وزیر قانون ہاٹ لائن پر رائیونڈ سے رابطے میں تھا کہ لیاقت جتوئی دھل کر صاف ہوکر سندھ کے وزیر اعلی کا حلف لے۔
انیس سو اٹھانوے کی احتساب عدالت نے جو سزائیں اس جوڑے کو دیں یا جس طرح سزائیں دلوائی گئیں وہ بھی انصاف کا قتل کرنے والی بات ہے۔
اب انیس سو نوے کی گھڑی کی سوئیاں دو ہزار سترہ میں شریف برادران اور انکے خاندان کے خلاف کی گئی ہیں کہ انکا احتساب جوکہ انتقام کی ہی ایک شکل بن گئی ہے۔
پروڈا سے ایبڈو تک سارا احتساب پیارے پاکستان میں سیاستدانوں کا ہی ہوا ہے۔ پھر وہ حسین شہید سہروردی تھے، ممتاز محمد خان دولتانہ، ایوب کھوڑو، بینظیر، آصف زرداری یا بڑا بھٹو۔
جٹ انصاف یعنی جے آئی ٹی انصاف جسکے دو اراکین وہ عملدار تھے جو ڈان لیکس کی بھی تحقیقات میں شامل تھے۔ اوجھڑی کیمپ میں ہزار کے قریب لوگ مر گئے کوئی چار ارب ڈالر کی امریکی امداد میں سے تیس فی صد امداد خورد برد ہوئی چھٹی محمد خان جونیجو کی ہوئی (ملاحظہ کیجیے کتاب فیتھ،یونٹی ڈسپلن؛ دی انٹر سروسز انٹیلی جنس آف پاکستان مصنف حین جی کیسلنگ۔) اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ایوب خان مبینہ طور پراپنی آئی بی پر دبائو ڈالتے رہے تھے کہ نوابزادہ نصراللہ خان کو قتل کیا جائے کہ وہ انکی مخالفت سے عاجز آ چکے ہیں۔ لیکن کسی افسر نے ان کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ شہید جمہوریت کی بجائے بابائے جمہوریت بننا قدرے آسان اور بہتر نہیں تھا! کاش کوئی اچھا افسر ایسا مشورہ ڈکٹیٹر مشرف کو بھی دیتا۔ کیانی اور مشرف کے سوئس بنکوں میں کروڑوں ڈالر اور یورو اورنگزیب کی طرح ان کے ہاتھ کی مشقت کے ہیں کہ ساری کمائی ٹوپیوں کی ہے۔

تازہ ترین