• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاشبہ اللہ والے وہی کہ جنہیں مل کر اللہ یاد آجائے اور بے شک ہماری ہی تلاش ختم ہو چکی ورنہ اللہ والے تو آج بھی موجود!
والدہ کی خواہش کہ وہ دل کے سرجن بن کر سچن برنارڈ کی طرح نام کمائیں ‘جبکہ ان کی آرزو تھی کہ اسلام کے نامور مبلغ شیخ احمد دیدات کے نقشِ قدم پر چلیں، جب ماں بیٹے کی یہ کشمکش نقطہ ٔ عروج کو چھونے لگی تو ایک دن اُنہوں نے اپنی ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بڑی محبت سے پوچھا ’’آپ کیا چاہتی ہیں کہ میں شیخ دیدات بنوں یا کرسچن برنارڈ ؟‘‘ماں لمحہ بھر کیلئے سوچ کر بولی ’’دونوں ‘‘ یہ جواب پا کر اُنہوں نے ڈاکٹری میں داخلہ لیااور ممبئی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس بھی کر لیا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، ہوا یوں کہ اپنی میڈیکل تعلیم کے دوران جب اُنہوں نے دیکھا کہ آج کے نوجوان مسلمانوں کی اکثریت مذہب کوا یک دقیانوسی اور فرسودہ نظریات کا مجموعہ سمجھ رہی اور اپنے مذہب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اکثر ان کا رویہ معذرت خواہانہ تو اس مذہبی گومگو اور کنفیوژن سے انہیں نکالنے، مذہب کی خوبیوں اور خصوصیات سے انہیں متعارف کروانے اور انہیں مغربی مذہبی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کیلئے وہ 1991میں ڈاکٹری چھوڑ کر مبلغ بن گئے، حالانکہ زبان کی ہکلاہٹ کی وجہ سے وہ مبلغ بننے کی بجائے مصنف بننا چاہتے تھے یعنی جو کچھ آج وہ تقریر میں کہہ رہے یہی کچھ وہ تحریر کے ذریعے کرنا چاہتے تھے مگر اللہ نے ایسا کرم کیا کہ 18اکتوبر 1965کو ممبئی میں پیدا ہونے والا یہ بچہ جو بچپن سے تقابلِ ادعیان اور اسلام پر کتابیں پڑھنےلگا تھا،، جب مائیک کے سامنے کھڑا ہوا تو زبان ایسی چلی کہ پھر اس کے آگے کسی کی نہ چلی۔
جی ہاںدوستو!‘ میں بات کر رہا ہوں ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک کی، وہ جن کی بدولت ہزاروں لوگ اسلام قبول کر چکے، جو پوری دنیا میں دیکھے، سنے اور چاہے جا نے والے مذہبی ا سکالر وں میں سرِفہرست، جن کے فیس بک پیج پر دنیا کے کسی مذہبی ا سکالر سے زیادہ Followers، جو اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن اور پیس ٹی وی کے بانی ‘ جن پر اللہ کا ایسا فضل کہ جب انہیں بھارت سے نکلنے پر مجبور کیا گیا تو 10اسلامی ممالک کے سربراہوں نے شہریت کی آفر کردی، جب برطانوی حکومت نے برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگائی تو پہلے 200ملین لوگ انہیں دیکھ اور سن رہے تھے پھر یہ تعداد 500ملین تک جا پہنچی اور وہ ڈاکٹر نائیک جن کی مقبولیت کا یہ عالم کہ جب انڈونیشیاگئے تو 3ملین لوگ استقبال کیلئے موجود، دینِ اسلام کے اسی مبلغ، مفکر اور داعی کے ساتھ 26ویں رمضان کی صبح خانہ کعبہ کے سامنے ہوٹل کے لاؤنج میں عالمی شہرت یافتہ مذہبی اسکالر ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے خاوند اور معروف عالمِ دین ڈاکٹرادریس زبیر کے ساتھ جب میں بیٹھ چکا، سلام دعا، حال احوال مطلب رسمی گفتگو ہو چکی تو میرے اس پہلے سوال پر کہ ’’بقول بھارتی میڈیا ٹی وی ا سکرین پر غیر مسلموں کو مسلمان کرنے سے سوالوں کے جواب دینے تک آپ کا بہت کچھ پہلے سے طے ہوتا ہے، کیا یہ ٹھیک ہے ؟ ‘‘، ڈاکٹر نائیک تلخ لہجے میں بولے، ’’ مجھے اس وقت دُکھ نہیں ہوتا جب غیر مسلم میڈیا ایسی باتیں شائع کرتا اور پھیلاتا ہے، مجھے دُکھ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب یہی باتیں بنا کسی تحقیق کے مسلم میڈیا شائع کرتا اور پھیلاتا ہے، مجھ پر لگے الزامات کو چھوڑیں، یہ تو بہت چھوٹی باتیں، ہماری حالت تو یہ کہ غیر مسلم میڈیا نے داعش کو پہلے اسلام کی نمائندہ تنظیم مشہور کیا، داعش حکومت کو اسلامی حکومت اور اسکے قبضے میں علاقے کو اسلامی ریاست قرار دیا اورپھر اپنے مخصوص ایجنڈے اور خاص منصوبے کے تحت داعش کے انسانیت پر ظلم وستم کو بنیاد بنا کر اسلام کو بدنام کر نا شروع کر دیا، اب اس تمام معاملے میں بدقسمتی سے نہ صرف مسلم میڈیا نے غیر مسلم میڈیا کی اندھا دُھند تقلید کی بلکہ وہی کچھ کیا جو مغرب یا غیر مسلم میڈیا نے چاہا، یہاں افسوسناک بات یہ کہ کسی ایک مسلمان نے بھی یہ نہ سوچا کہ بھلا اللہ اور رسول ؐ کو ماننے والے ظالم اورجابر کیسے ہو سکتے ہیں اور بھلا کسی اسلامی ریاست میں اسلامی روح کے منافی بے ہودہ اور واہیات کام کیسے ہو سکتے ہیں، کم ازکم مسلم میڈیا کو تو چاہئے تھا کہ وہ داعش حکومت کو غیر اسلامی حکومت کہتا ‘‘ ڈاکٹر ذاکر نائیک بات کرتے کرتے رُکے تو میں نے دوسرا سوال کیا ’’ بھارت آپ جا نہیں سکتے، برطانیہ داخلے پر پابندی لگ چکی اور اوپر سے ایک مخصوص لابی مسلسل آپ کی کردار کشی کر رہی، یہ سب دیکھ کر پریشانی نہیں ہوتی ‘‘، ڈاکٹر ذاکر نائیک ہنس کر بولے ’’ جب اللہ تعالیٰ سورہ الم نشرح میں یہ فرماچکے کہ ’’ہر پریشانی کے ساتھ آسانی ہےاور بلاشبہ ہر پریشانی کے ساتھ آسانی ہے‘‘ تو پھر بھلا مجھے پریشان ہونے کی کیا ضرورت، بلکہ میرے ساتھ تو ہمیشہ ایسا ہوا کہ اگر ایک دروازہ بند ہوا تو 100دروازے کھل گئے ‘‘ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی بات مکمل ہوتے ہی میں نے اگلا سوال کیا’’ ایک طرف دنیا اسلام مخالف ہو چکی جبکہ دوسری طرف مسلمان خود اپنے دین کی جڑیں کاٹ رہے اور صورتحال یہ کہ ہم دن بدن مائل بہ زوال، کیا کبھی ہمارا یہ مذہبی زوال ختم ہوگا ؟‘‘، ڈاکٹر نائیک نے مسکراتے ہوئے کہا ’’اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت، سورہ صف اور سورہ فتح میں فرماچکے کہ’’ اسلام غلبہ حاصل کرے گا‘ ‘لہٰذا کسی کو رتی بھر بھی یہ شک وشبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اسلام کو عروج نہیں ملے گا، بالکل عروج ملے گا ‘‘، دوستو!ویسے تو اُس صبح کوئی ایسا موضوع نہ تھا کہ جس پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نہ بولے اور کوئی ایسا سوال نہ تھا کہ جسکا اُنہوں نے جواب نہ دیا، لیکن اُس روز اُنہوں نے جہاں یہ شکوہ کیا کہ ’’ میری جتنی مخالفت اپنے کر رہے، اتنی کبھی غیروں نے نہ کی، وہاں اُنہوں نے اس راز سے بھی پردہ اُٹھایا کہ کیسے ایک سازش کے تحت بھارتی حکومت نے ان پر الزامات لگائے او ر کیوں ہندوستان کی اکثریت کا ابھی تک یہ خیال کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک حق پر اور ان کے حوالے سے پھیلائی گئی سب باتیں جھوٹ کا پلندہ، جہاں ڈاکٹر نائیک نے بڑی محبت سے پاکستان اور پاکستانیوں کا ذکر کرکے کہا کہ وہ بہت جلد پاکستان آنے والے، وہاں اُنہوں نے یہ بھی بتادیا کہ وہ مستقل طور پر ملائیشیا میں رہنے پر غور کر رہے اور جہاں ڈاکٹر ذاکرنے بڑی عقیدت سے شیخ احمد دیدات کا ذکر کیا وہاں اُنہوں نے برملا یہ اقرار بھی کیا کہ وہ آج جو کچھ بھی اس کا سہرا شیخ دیدات کے سر۔
دوستو! ویسے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ہزاروں باتیں اور ویسے تو ان کی انتھک محنت اور کامیابی کی داستان میں سو داستانیں، لیکن جب مجھے یہ پتا چلے کہ وہ ہندوستانی تاجر جو اسلام کی محبت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر افریقہ کی متعصب اور جارحانہ عیسائی مشنریز کے سامنے ڈٹ گیا ‘جس نے مغرب ومشرق میں انجیل، نصرانیت اور اسلام پر ہزاروں یادگار لیکچرز دیئے جس نے اسلام اورعیسائیت پر ہٹ نہیں بلکہ سپرہٹ کتابیں لکھیں، جس نے ہر مشکل اورہر مصیبت کا مقابلہ کر کے 50سال تک اسلام کا پرچم تھامے رکھا اور جو فالج ہو نے پر اشاروں کی زبان سے لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرتا رہا، وہی مبلغ، مقرر، مصنف اور مناظر شیخ احمد دیدات ایک دن ڈاکٹر ذاکر نائیک کو گلے سے لگا کر جب یہ کہے کہ ’’ذاکر بیٹے مجھے تم میں اپنا عکس نظر آئے اور جو کچھ میں نے 40سال میں حاصل کیا، تم نے وہ چار سال میں حاصل کر لیا، پھر جب میں یہ دیکھوں کہ گزشتہ 25سالوں سے تبلیغ کرتے ڈاکٹر نائیک کو ہر فرقے اور ہرگروہ کے لوگ سنیں اور انہیں ہر مسلک سے محبت ملے، جب میرے مشاہدے میں یہ آئے کہ انکی ہر بات اللہ، رسول ؐ اور قرآن سے شروع ہو کراللہ، رسول ؐ اور قرآن پر ختم ہو جائے، جب میں قرآن سمیت ہر مذہب کی کتاب پر انکی بے مثال اور لاجواب دسترس دیکھوں، جب میں کمپیوٹر کی طرح چلتے ان کے دماغ کو ہر وقت اللہ کے دین کیلئے کوشاں دیکھوں اور جب میں ہر وقت، ہر گھڑی اور ہر پل انہیں حق کا پرچم تھامے کفر سے لڑتے پاؤں تب بس ذہن میں ایک ہی خیال آئے کہ بلاشبہ اللہ والے وہی کہ جنہیں مل کر اللہ یاد آجائے او ربے شک ہماری تلاش ہی ختم ہوچکی ورنہ اللہ والے تو آج بھی موجود!

تازہ ترین