• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اتوار کا دن تھا اور پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب میں ’سوچ‘ اور ’پائنا‘ کے زیرِ اہتمام ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں دو درجن سے زائد اصحابِ فکر اِس نکتے پر غور کر رہے تھے کہ اگلے روز سپریم کورٹ میں مشترکہ تفتیشی ٹیم جو رپورٹ پیش کرنے والی ہے، اس کے مندرجات کیا ہوں گے اور وہ ہماری قومی زندگی پر کیاکیا اثرات مرتب کریں گے۔ محترم اے کے ڈوگر جن کا وکالت میں ایک بہت بڑا نام ہے، انہوں نے غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل غیرآئینی ہے، کیونکہ آئین کا آرٹیکل 184(3)جس کے تحت یہ مشترکہ تفتیشی ٹیم قائم کی گئی ہے، وہ اسلام کے تصورِ عدل کے منافی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے سپریم کورٹ شریعت بنچ کے فیصلے کی روشنی میں ایک رِٹ پٹیشن دائر کی ہے اور اُمید ہے کہ عدالتِ عظمیٰ میں اس اہم آئینی نکتے پر بحث ہو گی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلہ سنایا جائے گا۔
پنجاب یونیورسٹی شعبۂ سیاسیات کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید نے پاکستان کی موجودہ غیر یقینی صورتِ حال کے بنیادی سبب کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور بھارت نے مشترکہ طورپر یہ طے کر لیا ہے کہ چین پاک اقتصادی راہداری کے عظیم الشان منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یورپی محققین جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ پر تحقیق کی، وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ جو زمین کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے، وہ اس کے اندر جذب ہوگئے جبکہ سمندر کے راستے سے آنے والے ہر اعتبار سے طاقت ور اور پائیدارثابت ہوئے۔ برطانیہ نے ہندوستان میں دو سو سال تک اپنا اثرونفوذ اور تشخص قائم رکھا۔ اب سی پیک اور گوادر میں مجوزہ چینی نیول بیس کی تعمیر سے بحرِہند کی اہمیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے اور وہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ پہلی بار امریکہ، جاپان اور بھارت بحرِہند میں مشترکہ جنگی مشقیں کررہے ہیں کہ انہیں چین، روس اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوف محسوس ہورہا ہے۔ پاکستان میں پاناما لیکس کے عنوان سے جس غیریقینی صورتِ حال نے جنم لیا، وہ بعض عالمی طاقتوں کی سازشوںکا شاخسانہ ہے۔ بدقسمتی سے اس گھناؤنے کھیل میں ہمارے اپنے لوگ مائنس ون فارمولا کی رَٹ لگائے ہوئے ہیں جو پاکستان میں جمہوری عمل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سابق سفیر جناب جاوید حسین نے پاکستان میں سیاسی آویزش کے منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم جو معاشی اعتبار سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھے، آپس میں دست و گریباں ہونے کی وجہ سے عالمی برادری میں اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔ دراصل ہماری ثقافتی شناخت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہماری پیش رفت، ہماری جدید اسلحہ سے مسلح بہادر افواج، ہمارا سیاسی اور معاشی استحکام اور ہمارا اسٹرٹیجک محلِ وقوع ہماری قومی طاقت کے بنیادی عوامل ہیں جو عالمی برادری کو ہماری بات سننے اور اس میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم داخلی طور پر متحد ہوں گے، تو ہمارے موقف کا وزن محسوس کیا جائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر مگسی جنہوں نے سیاسی جماعتوں پر تحقیق کی ہے۔ انہوں نے ہمارے اندر گہری ہوتی ہوئی آویزش کا سراغ ماضی میں تلاش کرتے ہوئے کہا کہ قائدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں کے زمانے ہی میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی رہنماؤں کے مابین رسہ کشی شروع ہو گئی تھی جو آج تک جاری ہے۔
قانون دان جناب میاں عبید کی ماہرانہ رائے کے مطابق وزیراعظم کے خلاف تحقیقات قانونی تقاضے پورے کیے بغیر شروع کی گئی ہے اور جے آئی ٹی کے بارے میں آغاز ہی سے تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اسے احتیاط سے کام لینا اور اپنی غیر جانب داری کا ہر مرحلے میں اہتمام کرنا چاہیے تھا۔
سیاسی تجزیہ کار جناب محمد مہدی کی رائے میں ملک میں پیدا ہونے والا عدم استحکام ہماری معیشت، ہماری سفارتی قوت اور درخشاں مستقبل پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ نعروں پر زندہ رہنے والی سیاسی جماعتیں 2018ء کے انتخابات سے خوفزدہ ہیں اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہیں۔
راقم الحروف نے پاکستان کی تشکیل کے سیاسی، تاریخی اور نظریاتی عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں قیامت خیز فرقہ وارانہ فسادات کے دوران اقلیتوں کو پورے اعتماد کے ساتھ یقین دلایا تھا کہ پاکستان میں انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور حقوق کی ادائیگی میں ریاست مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی امتیاز روا نہیں رکھے گی۔ راقم الحروف نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ 1954ء میں فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خاں جب وزیرِ دفاع بنائے گئے، تو اس کے بعد فوج کسی نہ کسی شکل میں سول امور میں دخیل چلی آ رہی ہے۔ جے آئی ٹی میں دو ایجنسیوں کو نمائندگی دے کر ماضی کے عمل کو غیر شعوری طور پر یا کسی حکمت کے تحت دہرایا گیا ہے جس کے ناخوشگوار نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔
راؤنڈٹیبل کے اگلے روز جے آئی ٹی کی رپورٹ دس جلدوں میں سپریم کورٹ کے عمل درآمد بنچ کے سامنے پیش کر دی گئی جو آٹھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں وزیراعظم اور ان کے اہل خاندان کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں جن کی مزید تحقیقات کے لیے ان کا ریفرنس نیب کو بھیجنے اور گیارہ مقدمات کھولنے کی سفارش کی گئی ہے جس میں سے بیشتر عدالتوں نے ختم کر دیے تھے۔ فاضل بنچ نے رپورٹ کی نو جلدیں پبلک کر دی ہیں اور فریقین کو تیاری کے ساتھ 17جولائی کو عدالت میں آنے کی ہدایت کی ہے۔ اس مقدمے کے مدعی جناب عمران خاں نے وزیراعظم کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، وزیرِخزانہ اسحاق ڈار اور اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
حکمران جماعت نے جے آئی ٹی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے اور فاضل عدالت کے سامنے اس کے قانونی اور واقعاتی سقم پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وفاقی وزراء نے پریس کانفرنس میں سیاسی مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس طرح سیاسی تناؤ میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میںآ رہا ہے جس پر پاکستان کے دشمن بہت خوش ہوں گے۔
جناب نوازشریف اور ان کے وزراء جے آئی ٹی رپورٹ کی قانونی حیثیت کو باربار چیلنج کرنے کے علاوہ اس کے مندرجات کو افسانہ قرار دے رہے ہیں، مگر انہیں سب سے پہلے جناب اسحاق ڈار کی طرح اپنے خلاف لگائے ہوئے الزامات کی مؤثر انداز میں تردید اور اہل خاندان کا چہرہ صاف کرنا ہو گا۔ اپوزیشن کی جماعتیں سترہ جولائی تک انتظار کرتی نظر نہیں آتیں اور افراتفری پھیلانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ چند روز ہی میں حکمرانوںکو ایک فیصلہ کن قدم اُٹھانا ہوگا۔ ان نازک وقتوں میں پاکستان کو افراتفری سے محفوظ رکھنے کے لیے سیاسی لیڈروں، عدلیہ، فوج اور میڈیا کو بالغ نظری اور بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ یہ امر واضح ہے کہ الیکشن کمیشن تین چار ماہ کے اندر نئے انتخابات کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے اگر عدالتِ عظمیٰ کے فل کورٹ بنچ کی طرف سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کا مرحلہ آ جاتا ہے، تو قومی اسمبلی سے نئے وزیراعظم کا انتخاب درست اور دانش مندانہ عمل قرار پائے گا۔ اس طرح جمہوری عمل کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور پارٹی بھی 'intact' رہے گی۔میرا دکھ یہ ہے کہ میں نے اپنے شاندار وطن کے لیے سیاسی، معاشی اور نظریاتی استحکام کے جو خواب دیکھے تھے، وہ ادھورے رہ جائیں گے۔اگرچہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بارے میںنہایت حوصلہ افزا باتیں کی ہیں۔ قوم کے سنجیدہ اور مقتدر طبقوں کو مخدوم جاوید ہاشمی کی اس آواز کو بغور سننا چاہئے کہ گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے ’القاب‘ کا استعمال فیصلہ سنانے کےمترادف ہے۔ ہماری تاریخ ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے جس میں مولوی تمیز الدین خاں کے خلاف چیف جسٹس منیر کا فیصلہ محفوظ رکھا ہے جس کے ذریعے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تھی۔

تازہ ترین