• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے صبری کسی بھی امر کو صفحہ زیست سے منہا کرنے کی خاطر بنیادی قدم ہے۔ صبر کا پھل میٹھا ہے، ہمارے صبر کو کمزوری نہ سمجھنا، صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے، اتنا صبر کہاں سے لائو، یہ ڈائیلاگ بہت پرانے اور مقبول ہیں۔ سب نے سنے ہوں گے اور کچھ قارئین نے تو دہرائے بھی ہوں گے۔ لوگوں نے ہمارے معاشرے میں ایک گالی کے پیچھے قتل یا ذرا سی بات پر طلاق جیسے واقعات دیکھے بھی ہوں گے جو ذرا سا صبر نہ کرنے پر عمر بھر کا پچھتاوا بن جاتے ہیں۔ یہی بے صبری اقتدار میں آنے کے لئے دکھائی جا رہی ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے بس اقتدار مل جائے حالاں کہ جن کے کندھوں پر بیٹھ کر شیر کے شکار کا پروگرام ہے ان ہی کو اپنے کندھوں پر بیٹھنے نہیں دیتے، خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ابھی کچھ عرصہ قبل فرانس میں صدارتی انتخابات ہوئے وہاں آنا جانا رہتا ہے، ایک دوست جو یورپ کی پاکستانی کمیونٹی میں معروف ہیں، گزشتہ دنوں ملے تو کہنے لگے کہ فرانس کے دوسرے بڑے شہر لیون کا رہائشی ہوں جو دریا رہون کے کنارے آباد ہے وہاں پر اہل وطن تعداد میں کم آباد ہیں اور اگر پیرس میں پاکستانیوں کی تعداد کو پیش نظر رکھا جائے تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں مگر ہم دیار غیر میں بس گردش ایام میں پھنسے ہوئے ہیں دولت کے ذخائر جمع کرتے کرتے کچھ نے تو اس شہر میں اپنی شناخت منوالی مگر بدقسمتی سے اپنی شناخت کھو بیٹھے اور یہی دکھ دیار غیر میں آباد ہر پاکستانی کا ہوتا ہے ہم کاروبار کو تو وقت دیتے ہیں مگر اولاد کے لئے صرف ویک اینڈ یا کوئی تہوار ہی نکل پاتا ہے۔ ابھی فرانس میں جب انتخابات ہوئے تو نیشنل فرنٹ کی امیدوار جو بہت عوامی حمایت بھی رکھتی تھی ’’تارکین وطن‘‘ بل خصوصی آباد کاروں کے متعلق فرانسیسی نہ ہونے کی بنیاد پر مہم چلا رہی تھی یہ کامیاب تو نہ ہو سکی مگر اس کے نظریاتی جرثوموں نے یورپ میں بھی ذہنوں کو بیمار کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کیفیت نے پاکستانیوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ زندگی کے قیمتی ماہ و سال اس یورپ کی نذر کرنے والوں کو کریڈٹ کارڈ تو مل گئے مگر اپنے ملکوں کے پاسپورٹ ان کے لئے اجنبی بن گئے۔ ابھی وہ اپنی گفتگو میں یہیں تک پہنچے تھے کہ میں نے کہا اب آپ دولت مند ہو وہاں کی دولت پاکستان واپس لے آئو اور کاروبار کر لو۔ بولے خواہش تو یہ ہی ہے مگر اگلی نسل تو اردو بھی ٹھیک طرح نہیں بول پاتی۔ پھر ان بچوں نے جو کچھ سنا یا پاکستان آ کر دیکھا وہ سونے پر سہاگہ ہے جس کی وجہ سے واپسی کے راستے مسدود ہیں بات یہ ہے کہ اگلی نسل کو والدین قائل ہی نہیں کر پاتے کہ وہ پاکستان واپس آ کر بس جائے۔ نوجوان نسل نے جو طرز زندگی دیکھ لیا ہےاب اس کو ترک کرنا چنداں آسان نہیں اور سچ بھی یہی ہے کہ جہاں ٹریفک قوانین کو توڑنا ایک حقیقی جرم سمجھا جاتا ہو اس معاشرے سے اٹھ کر وہاں آئیں جہاں آئین توڑ مروڑ ڈالنا بھی ایک کھیل ہے، یورپ کا طرہ امتیاز انسانی آزادیاں ہیں جو جمہوریت کے مستقل قائم رہنے سے حاصل ہوئی ہے یورپ کی جمہوریت کے تسلسل نے اپنے لوگوں کو ذمہ دار بنایا اور انسانی آزادی، ترقی ہوتی چلی گئی وقت کے ساتھ ساتھ بلوغت بھی آتی چلی گئی۔ کم سنی میں تو ایک ہی پیمانہ ہوتا ہے یعنی کوئی بات صحیح ہے یا غلط لیکن جب شعور کی مشعل روشن ہو جاتی ہے تو اس کی روشنی میں انسان جاننا چاہتا ہے کہ کوئی معاملہ آخر صحیح کیوں ہے اور اس کے غلط ہونے کی کیا دلیل ہے؟ جمہوریت اسی صلاحیت کو اجاگر کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور یہ صلاحیت اچھے فیصلے کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ مشعل یورپ میں مقیم پاکستانی بچوں کے ہاتھ میں بھی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے اعلیٰ ترین منتخب ادارے کو بے وقعت کیا جا رہا ہو جب کوئی جمہوری اقتدار کو برباد کرنے کے لئے معاشرے میں جمہوریت، سیاسی اداروں اور منتخب وزیر اعظم کے خلاف بے صبری کا مظاہرہ کر رہا ہو تو ان کو یہ یقین دلانا کہ ان کے حقوق پامال نہیں ہوں گے ناممکن ہے یہی پریشانی دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کی ہے۔

تازہ ترین