• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دن کئی روز کی شدید گرمی کے بعد ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور موسم خاصا خوشگوار ہو گیا تھا کیونکہ جون 2017شاید لندن کا گرم ترین مہینہ تھا۔ جب درجہ حرارت 37Cتک چلا گیا جو لندن کے باسیوں کے لئے ایک انہونی بات تھی۔ کیونکہ یہاں اکثر بلڈنگوں میں ائیر کنڈیشنر نہیں لگے ہوتے اس لئے اتنی گرمی ہمارے جیسے گرم ملکوں سے آئے ہوئے سیاحوں کے لئے بھی کافی تکلیف دہ تھی۔ ہم گرمی سے بچنے کے لئے یہاں آئے تھے لیکن یہاں تو آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے والی بات تھی۔ اس سے ایک بات تو سچ ہوتی دکھائی دی کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آنے والے سالوں میں دنیا کے کئی ٹھنڈے ملک بھی گرم ہو جائیں گے۔ کئی روز کی شدید گرمی کے بعد ہم ابھی خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہور ہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف وکٹوریہ شیفیلڈ تھیں جو یو کے کی معروف صحافی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذاتی دوست اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی کلاس فیلو ہیں۔ وہ کچھ ماہ پہلے بے نظیر لٹریری فیسٹیول میں شرکت کرنے لاہور آئی تھیں اور ہمارے گھر میں ہی ٹھہری تھیں۔ انہیں ہمارے لندن آنے کی خبر تھی۔ انہوں نے فون پر ہمیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی چھوٹی صاحبزادی صنم بھٹو بھی مجھ سے ملنا چاہتی ہیں اور وہ بھی وہاں موجود ہوں گی تو ہماری خوشی دوبالا ہو گئی۔ صنم بھٹو نہ صرف اس عظیم قائد ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی ہیں جو قائد ہماری نسل کا آئیڈیل سیاستدان اور سیاسی مفکّر تھا بلکہ بھٹو خاندان کی واحد زندہ بچ جانے والی فرد بھی۔ بلاشبہ ہماری قومی تاریخ میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے جو قربانیاں بھٹو خاندان نے دی ہیں وہ بے مثال ہیں۔ آج نواز شریف اور ا ن کی فیملی جس کروفر اور شان و شوکت کے ساتھ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے جاتے رہے ہیں۔ اسے مظلومیّت کا نام دینا بذاتِ خود ایک ظلم ہے کیونکہ دونوں کے ادوار اور مقدمات کی نوعیّت میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ بھٹو کو اپنے وقت کی عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ اس کے سامراج مخالف رویے کی وجہ سے ہر قیمت پر راستے سے ہٹانا چاہتی تھی جس کے لئے انہوں نے ایک ایسے جھوٹے مقدمہ قتل کا سہارا لیا جسے دنیا کے ممتاز ماہرینِ قانون نے عدالتی قتل قرار دیا جبکہ نواز شریف اور ان کی فیملی کو بدعنوانی کے ایسے مقدمے کا سامنا ہے جو ایک عالمی اسیکنڈل ہے جس میں دنیا کے اور کئی بااثر افراد اور خاندان ملّوث ہیں اور معاملہ صرف منی ٹریل کا ہے جسے بدقسمتی سے شریف خاندان ثابت نہیں کر سکا۔
بہرحال وکٹوریہ شیفیلڈ کے گھر صنم بھٹو کے ساتھ ہونے والی یہ ملاقات یادگار ہونے کے ساتھ انتہائی جذباتی بھی تھی۔ صنم بھٹو کو بھٹو خاندان کی واحد غیر سیاسی شخصیت بھی سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانی سیاست کے بارے میں ان کے تجزیے انتہائی حقیقت پسندانہ تھے۔ اس ملاقات میں میرے ساتھ میری اہلیہ اور میری بیٹی بھی تھی۔ جب صنم بھٹو نے 5جولائی 1977اور اس کے بعد ہونے والے تلخ اور دل دہلا دینے والے واقعات کا ذکر کیا تو فضا سوگوار ہو گئی اور تمام خواتین کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ صنم بھٹو نے بتایا کی تمام تر دنیاوی آسائشوں کے باوجود بھٹو صاحب ہمیں ہمیشہ سادگی اور عوامی زندگی بسر کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھیں اور جب امریکہ سے واپس آئیں تو ان کی جیب میں صرف ایک ڈالر تھا۔ جسے انہوں نے بڑے فخر کے ساتھ اپنے بہن بھائیوں اور والدین کو دکھایا۔ اس پر بھٹو صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سادگی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ خالی جیب سفر کریں۔ خدانخواستہ اگر راستے میں کوئی ایمرجنسی ہو جاتی اور تمھیں پیسوں کی ضرورت پڑ جاتی تو تم کیا کرتیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد خرچ کے معاملے میں نہایت کفایت شعار اور محتاط تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ضیاء انتظامیہ اپنی پوری کوشش کے باوجود ان کے خلاف مالی کرپشن کا کوئی مقدمہ نہ بنا سکی۔ اسی طرح ان کے سیاسی مخالفین ان پر ملک توڑنے کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن اگر وہ اس سازش میں ملوث ہوتے تو ان کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ نہ بناتے جسے وقت نے بھی غلط ثابت کر دیا بلکہ ملک توڑنے کا مقدمہ دائر کرتے۔ اور اگر وہ ثابت ہو جاتا تو بھٹو کبھی ’’ہیرو‘‘ نہ بنتے۔ انہوں نے آج کل کے ’’شاہ خرچ‘‘ حکمرانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کل کے حکمرانوں کے بچے جس عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ہم اس کا تصّور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یاد رہے کہ صنم بھٹو عرصہ دراز سے لندن میں مقیم ہیں اور ایک سادہ سے فلیٹ میں رہتی ہیں۔ اور ہم سے ملنے بھی ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر آئی تھیں۔ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو یاد کر کر کے بار بار ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ انہوں نے اپنی بھتیجی اور مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو کے بارے میں بتایا کہ وہ نہایت قابل اور سلجھی ہوئی خاتون ہیں لیکن ہمارے خاندان کی بدقسمتی ہے کہ وہ مین اسٹریم پالیٹکس میں نہیں آئیں لیکن انہوں نے اپنی شاعری اور ادبی تحریروں سے اپنا ایک منفرد مقام بنالیا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آمریت بذاتِ خود سب سے بڑی کرپشن ہے کیونکہ عوام کی مرضی کے خلاف طاقت کے زور پر غاصبانہ قبضہ سوسائٹی میں صرف ظلم اور کرپشن کو ہی فروغ دے سکتا ہے کیونکہ ایسی حکومتوں کو کسی ’’احتساب‘‘ کا خوف نہیں ہوتا۔ یہ جنرل ضیاء کا ہی دور تھا جس میں اخلاقی، مذہبی اور مالی غرض ہر طرح کی کرپشن کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء کی باقیات نے کرپشن کو بامِ عروج پر پہنچادیا۔ جس کے اثرات دیگر سیاسی جماعتوں تک بھی پہنچ گئے اور پیسے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ لگ گئی کیونکہ آج پیسے کے بغیر پاکستان میں سیاست کرنے کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا جبکہ میرے والد نے سیاست مہنگے ڈرائنگ روموں سے نکال کر غریب عوام تک پہنچا دی تھی۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ زبوں حالی پر ہر محبِ وطن پاکستانی کی طرح محترمہ صنم بھٹو بھی انتہائی فکر مند تھیں لیکن وہ بلاول بھٹو کے بارے میں بہت پُرامید ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول اگرچہ ابھی نوجوان ہے لیکن اس میں اپنے نانا اور والدہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ بھی میرے والد کی طرح پاکستان کو ایک روشن خیال، لبرل اور ترقی یافتہ ملک بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ جس کا اس نے مجھ سے بار ہا اظہار کیا ہے۔ معروضی حالات میں ابھی شاید اس کے راستے میں کچھ رکاوٹیں ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ بلاول کی قیادت میں ایک دن پاکستان اور پیپلزپارٹی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیں گے۔

تازہ ترین