• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس کیس پر جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے مگر یہ حساس اور سنگین معاملہ محض بیان بازی سے ختم نہیں ہو گا۔ اب اس معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ پر سیاسی محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے اور عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ موجودہ ملکی منظر نامے میں وزیراعظم نواز شریف کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ عدالت عظمیٰ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہو جائیں اور عدالت میں اپنے خلاف الزامات کا دفاع کریں۔ اس صورت میں مسلم لیگ (ن) میں سے کوئی فرد حکومت سنبھال لے گا اور سیاسی بحران تھم جائے گا جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار کریں اور وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری بھی اُس وقت تک ادا کرتے رہیں۔ ہمارے خیال میں ان کے لئے پہلا آپشن زیادہ مفید رہے گا کیونکہ اگر وہ از خود موجودہ سیاسی صورتحال میں مستعفی ہو جاتے ہیں تو وہ شاید عدالت میں نااہل ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس قدر سنگین الزامات ان پر لگائے گئے ہیں اُس پر وہ دس سال یا پھر تاحیات نااہل ہو سکتے ہیں۔ پاناما کیس میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے بھی اپنی رپورٹ میں وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز کے خلاف کرپشن کے ثبوت اکھٹے کر لئے ہیں جو سپریم کورٹ میں پیش کئے گئے ان شواہد کی روشنی میں جے آئی ٹی نے سفارش کی ہے کہ شریف فیملی سے قومی دولت کی واپسی کے لئے نیب میں ریفرنس بھجوایا جائے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف بلاوجہ شور و غوغا کیا جا رہا ہے حالانکہ وزیراعظم نواز شریف نے خود اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکمراں خاندان صبر و ضبط کا مزید مظاہرہ کرتا اور عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جاتا مگر افسوس یہ ہے کہ ایسا نہ ہو سکا۔ پہلے حکومتی وزرا کی طرف سے جے آئی ٹی کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا اور اب اُس کی تحقیقاتی رپورٹ کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا گیا ہے۔ اگر ماضی میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کو پیپلز پارٹی قبول کر سکتی ہے تو مسلم لیگ(ن) کو بھی اعلیٰ ظرفی سے عدالتی فیصلوں کو قبول کرنا چاہئے۔ المیہ ہے کہ وزیراعظم سابقہ غلطیوں کو پھر سے دہرا رہے ہیں جو پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ انہیں تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ ملی مگر لگتا ہے کہ انہوں نے غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد اپوزیشن بھی یکجاں ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے۔ اب وزیراعظم وزارت عظمیٰ میں رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں ریاستی ادارے مضبوط ہو رہے ہیں اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد بڑھ رہا ہے کیونکہ ریاستی اداروں کے استحکام سے جمہوریت بھی مضبوط ہو گی۔ پاناما کیس ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل بن چکا ہے۔ اب اس کیس پر سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنا باقی ہے۔ اس وقت پوری قوم کی نظریں عدالت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں۔ اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی ایگزیکٹو کلب میں ہمارے دوست کالم نگار اور دانشور جناب محمد مہدی نے ایک خصوصی مذاکرے کا بھی انعقاد کیا۔ مجھے بھی وہاں مدعو کیا گیا تھا۔ اس اہم فکری نشست میں جناب الطاف حسن قریشی اور دیگر اہم شخصیات بھی شریک تھیں۔ میں نے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے عرض کیا کہ وزیراعظم نے تو اپنے آپ کو خود احتساب کے لئے پیش کیا تھا۔ یہ ایک اچھی روایت ہے مگر اب حکومتی صفوں میں اس قدر بے چینی کیوں ہے؟ آج ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں احتساب کا عمل چلتا رہے کیونکہ احتساب میں ہی قوموں کی زندگی ہے۔ اگر کسی بھی برسر اقتدار جماعت میں کرپٹ عناصر موجود ہیں تو ان کا بلاتفریق احتساب ہونا چاہئے۔ میں نے مزید عرض کیاکہ پاناما لیکس کے معاملے پر احتساب وزیراعظم کی فیملی سمیت سب بدعنوان افراد کا ہونا چاہئے بلکہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے سوئس اکائونٹس اور ملکی قرضے معاف کرانے والوں کو بھی احتساب کے شکنجے میں لانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس وقت کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کرپشن سے مہنگائی، غربت اور بے روزگاری فروغ پاتی ہے۔ اس لئے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی میں کبھی حکمرانوں کا احتساب نہیں ہو سکا۔ اب پاکستانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی وزیراعظم اور اس کی فیملی کو کرپشن کے الزام میں عدالت میں لایا گیا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کے حالیہ کردار سے قوم مطمئن دکھائی دے رہی ہے۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لئے عدلیہ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ عدالتیں ٹھیک طریقے سے کام کرتی رہیں اور حق و انصاف پر مبنی فیصلے دیئے جائیں تو معاشرے میں بے اطمینانی اور انتشار نہیں پھیلتا۔ پاناما لیکس کے معاملے پر بھی اب تک سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی نے جو رول اداکیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ ایک ایسے وقت میں عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس پر سماعت شروع کی تھی جبکہ ملک میں سیاسی کہرام مچا ہوا تھا۔ اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر احتجاج کر رہی تھیں اور ملک میں سیاسی بے یقینی کی فضا تھی۔ اگر سپریم کورٹ اس اہم معاملے میں اپنا کردار نہ ادا کرتی تو جمہوری سسٹم کب کا ڈی ریل ہو چکا ہوتا۔ جمہوری تسلسل کا کریڈیٹ یقیناً عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کو جاتا ہے کہ انہوں نے آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے رکھا اور تصادم اور سیاسی محاذ آرائی کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے چار سال پورے ہو چکے ہیں۔ اسے عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے جمہوریت کو پٹری سے اترنے نہیں دیا۔ اب حکومت کو ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا اور ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ سیاست میں قربانی دینا پڑتی ہے۔ گزشتہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی ایسے کٹھن حالات پیش آئے تھے ۔اس نے بھی قربانی بھی دی مگر جمہوریت کے وسیع ترمفاد میں پیپلز پارٹی نے ریاستی اداروں سے ٹکرائو کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ اُس نے دانش مندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرکے اپنے پانچ سال پورے کئے تھے۔ کچھ عاقبت نااندیش عناصر موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کو سی پیک کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کوئی بھی رکاوٹ آئے سی پیک پر کام جاری رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کاتعلق کسی حکومت سے نہیں ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان اور چین کے درمیان اس حوالے سے پیش رفت ہو رہی تھی۔ بالآخر نواز شریف حکومت کے دوران اس منصوبے پر کام تیزی سے شروع کیا گیا جو کہ بھرپور انداز میں جاری ہے۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے عسکری ادارے اس عظیم منصوبے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ سی پیک کو ان شاء اللہ اپنے وقت پر مکمل ہونا ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ چینی حکومت بھی سی پیک پرکام کی رفتار سے مطمئن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی تمام تر توجہ سی پیک کے انتظامی معاملات پر لگی ہوئی ہے۔

تازہ ترین